پولیس نے سب سے پہلے مٹھائی کی دکان سے متصل زرعی ادویات کی دکان کے مالک کا اقبالی بیان دلایا تھا کہ اس نے دکان کے مالک طارق محمود سے رنجش کی بنا پر مٹھائی میں کیڑے مار دوائی ملا دی تھی۔

پولیس نے ملزم کی دکان سے دیگر کیڑے مار ادویات بھی برآمد کرنے کے علاوہ وہ خالی بوتل بھی برآمد کی تھی جس کے بارے میں پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ اس بوتل سے مٹھائی تیار کرتے ہوئے دوا برتن میں ڈالی گئی تھی۔

اس سے پہلے پولیس حکام کی طرف سے ایک اور ملزم حامد خان کا بیان بھی سامنے آیا تھا جس میں ملزم کا کہنا تھاکہ اس نے غلطی سے یہ دوائی مٹھائی تیار کرتے وقت ڈال دی تھی جس کے بارے میں ملزم نے اس دکان کے مالک طارق محمود کو بھی بتایا تھا۔

اب پولیس نے طارق محمود کے چھوٹے بھائی اور ملزم خالد محمود سے اعتراف کرایا ہے کہ اُس نے اس مٹھائی میں کیڑے مار دوا اپنے بڑے بھائی کے نارواسلوک کی وجہ سے ملائی ہے۔

یہی حال پولیس کا برسوں پہلے تھا یعنی پولیس کی چھترول کسی سے بھی اقبالِ جرم کرا سکتی تھی۔ مطلب یہ ہوا کہ خادمِ اعلٰی کی پولیس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
اگر لیہ جیسے واقعات کا تدارک کرنا ہے تو سب سے پہلے ہماری پولیس کے زہریلے تفتیشی طریقہء کار کو بدلنا ہو گا۔ ورنہ بیگناہوں کی سزائیں قیامت کے دن حکومت کے گلے کا طوق بن جائیں گی۔