ایک کینیڈین کمپنی نے پاکستان میں پہلے پانچ سکرینوں پر مشتمل سنیما گھر کا راولپنڈی میں عید کے روز  آغاز کیا ہے۔ اس کمپنی کا پروگرام ہے کہ وہ اگلے پانچ سال میں ایک سو بیس سکرینیں پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں تعمیر کرے گی جن پر تیس ملین ڈالر لاگت آئے گی۔ اس پروجیکٹ کو ملٹی پلیکس تھیٹر کہا جاتا ہے اور اس طرح کے سنیما گھر یورپ میں بہت مقبول ہیں۔ ایک تھیٹر میں پانچ سے لیکر دس فلمیں ایک ساتھ چلتی ہیں اور فلمی شائقین  اپنی من پسند کوئی بھی فلم دیکھ سکتے ہیں۔

یہ تھیٹر پاکستان میں پرانے سنیما کی جگہ لے لیں گے اور ان میں انٹرنیشنل فلموں کیساتھ ساتھ پاکستانی فلمیں بھی دکھائی جائیں گی۔ فلم کے ٹکٹ آن لائن بھی خریدے جاسکیں گے۔ یہ کمپنی انٹرنیشنل لیول پر سائنیپلیکس Cineplexکے نام سے جانی جاتی ہے مگر پاکستان میں اس نے اپنا نام سائنیپیکس Cinepax رکھا ہے۔ کمپنی کی اپنی ویب سائٹ بھی www.cinepax.com کے نام سے لانچ کی گئی ہے مگر یہ سایٹ ابھی نامکمل ہے۔

اس پروجیکٹ سے ہمیں اگر ایک طرف یہ خوشی ہوئی ہے کہ پاکستانی شائقین اب اچھے ماحول میں معیاری انٹرنیشنل فلمیں ریلیز ہونے کے ایک ماہ کے اندر اندر دیکھ سکیں گے تو دوسری طرف افسوس بھی ہوا ہے کہ مقامی بزنس مین کی بجائے ایک انٹرنیشنل کمپنی نے یہ پروجیکٹ شروع کیا ہے۔ جس کا نقصان یہ ہوگا کہ اس کمپنی کی کمائی پاکستان سے باہر چلی جایا کرے گی اور دوسرے دشمنان اسلام کو یہ موقع مل جائے گا کہ وہ میڈیا کی مدد سے مسلمانوں کی برین واشنگ کرنا شروع کردیں گے۔ اس سازش کا پتہ تب چلے گا جب اس کا شکار ایک پوری نسل جوان ہو کر میدان میں اترے گی۔ تھیٹر یورپ میں رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کا ٹی وی کے بعد بہت ہی موثر ذریعہ ہے اور یہ تھیٹر کا ہی کمال ہے جس نے یہودیوں کے ہولوکاسٹ کے پروپیگنڈے کو پوری دنیا میں مشہور کیا ہے اور اس کیخلاف بولنے والے کو غیرمہذب اور پتہ نہیں کیا کیا کہا جاتا ہے۔ حالانکہ ہولوکاسٹ کے مقابلے میں دوسرے بھی بہت سارے واقعات ہوئے ہیں جن میں لاکھوں جانیں ضائع ہوئی ہیں۔

کاش ہماری فلم انڈسٹری کے کرتا دھرتا اور موجودہ سنیما کے مالکان اس خطرے کو بھانپ سکتے۔ کاش ہماری حکومت بھی اپنے سلوگن “سب سے پہلے پاکستان” کو صحیح پیمانے پر عملی جامہ پہناتے ہوئے غیرملکی کمپنیوں کی بجائے پاکستانی کمپنیوں کو کاروبار شروع کرنے میں مدد دیتی۔ کاش ہماری حکومت یہ سوچ سکتی کہ غیرملکیوں کی بڑھتی ہوئی اجارہ داری ایک دن پاکستان کو غلام بنا لے گی اور پھر ہم غلامی کی زنجیروں میں اس طرح جکڑے جائیں گے کہ سانس بھی اپنی مرضی سے نہ لے سکیں گے۔