جناب ڈاکٹر عبدالقدیرخان کو گھر میں نظربند ہوئے کل پورے چار سال ہوگئے۔ ان چار سالوں میں ملک کو لوٹنے والے بھگوڑے واپس آگئے، قومی مفاہمتی آرڈیننس کیے ذریعے لٹیروں کے مقدمے معاف کردیے گئے، شوکت عزیز اپنی نوکری پوری کرکے واپس چلے گئے مگر اہل اقتدار اسیرِ پاکستان بابائے پاکستانی ایٹم بم ڈاکٹرعبدالقدیر کی قید ختم نہ کرسکے۔
جنرل ریٹائرڈ مشرف کیساتھ ملاقات میں ایک دفعہ کالم نگار عبدالقادر حسن نے کہا کہ ڈاکٹرخان ابھی بھی ان کے ہیرو ہیں اور صدرمشرف سے پوچھا کیا آپ کے نہیں ہیں۔ جنرل صاحب کا جواب تھا “پہلے تھے اب نہیں ہیں”۔
کوئی صدر مشرف سے پوچھے اگر آپ طالبان کے بارے میں یوٹرن لے سکتے ہیں، بینظیر اور نواز شریف کو واپس نہ آنے کا سالوں اعلان کرنے کے بعد انہیں واپس آنے دیتے ہیں، قرض نادہندگان کو نیب کا استعمال کرکے لوٹے بنا کے اپنی حکومت میں شامل کرسکتے ہیں، وردی کو کھال کہنے والے اسے اتار سکتے ہیں تو پھر ڈاکٹرخان کو معاف کیوں نہیں کرسکتے۔ کیا ڈاکٹرخان کا جرم اتنا ہی سنگین ہے کہ ان کی معافی ناممکن ہے؟
اگر آج جنرل مشرف اور ڈاکٹرخان کے درمیان صدارتی مقابلہ کرایا جائے تو ڈاکٹر خان یقینی طور پر جیت جائیں گے مگر انہیں جیتنے کون دے گا۔ اگر جنرل ایوب صدارت کیلیے فاطمہ جناح کو فراڈ سے ہرا سکتے ہیں تو جنرل مشرف بھی ڈاکٹر صاحب کو ہرا سکتے ہیں۔ مگر صدر مشرف صاحب یاد رکھیں جنرل ایوب کو اب لوگ اچھے نام سے یاد نہیں کرتے جبکہ فاطمہ جناح کی عزت ہر دل میں اب بھی موجود ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ قوم سوئی ہوئی ہے اور اس میں بنی اسرائیل کی طرح اتنی طاقت نہیں کہ مقابلے کیلیے باہر نکل سکے۔ اب بھی پاکستانی خدا سے امید لگائے بیٹھے ہیں۔ ہم کچہ نہیں کریں گے اور اگر کچہ کرنا ہے تو وہ خدا ہی کرے گا۔ مگر خدا بھی کہتا ہے کہ وہ تب تک کچہ نہیں کرے گا جب تک قوم ہاتھ پیر نہیں ہلائے گی۔ اگر قوم جاگی ہوتی تو فاطمہ جناح کو ہرانے کیلیے نہ جنرل ایوب کو فراڈ کرنے دیتی اور نہ صدر مشرف کو ڈاکٹر خان کو گھر میں قید رکھنے دیتی۔ دراصل ہم لوگ تبدیلی بھی چاہتےہیں اور موجودہ کرپٹ سسٹم سے تنگ بھی ہیں مگر ہم رسک نہیں لینا چاہتے اور یہی آس لگائے رکھنا چاہتے ہیں کہ ایک نہ ایک دن کوئی آئے گا جو صدرمشرف کو اقتدار سے بھی ہٹا دے گا اور ڈاکٹرخان کو بھی رہا کردے گا۔ ڈاکٹرخان کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ ایک سوئی ہوئی اور مردہ قوم کے ہیرو ہیں۔ جو قوم ساٹھ ججوں کی معطلی برداشت کرسکتی ہے اس کیلئے اپنے ایک قومی ہیرو کی قید کوئی معنے نہیں رکھتی۔
اب تو یہی امید ہے کہ شاید آنے والی حکومت نئی حکمت عملی اپناتے ہوئے ایک تو دہشت گردی کی ہم پر مسلط کردہ جنگ ختم کرسکے اور دوسرے ڈاکٹرخان کو رہا کر سکے۔
خدا ہمیں نیندِغفلت سے جگائے اور ڈاکٹرخان کی رہائی کیلیے جدوجہد کرنے کی طاقت عطا فرمائے۔
11 users commented in " بابائےایٹم بم ڈاکٹرعبدالقدیرخان کی اسیری "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackکل میں اس پر لکھنے کا سوچتا رہا مگر اب آپ نے لکھ دیا!!! کافی ہے!!
گزر تو گئی ہے حیات تیری اے قدیر
ستم ظریف بے درد کوفیوں میں گزری
از محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان
يہ ڈاکٹرعبدالقدير بابائےایٹم بم کيسے ہوگئے؟ اور باقی کے سائنسدان کيا بھاڑ جھونکتے رہے؟
WHO IS THE REAL FATHER OF PAKISTAN’S NUCLEAR PROGRAM?
Interview of Dr.Samar Mubarak-Head of Pakistan Missile Program in WMDs & Missiles by Hamid Mir
Hamir Mir – Mr.Samar first of all please tell us when did our nuclear program begin?
Dr.Samar Mubarak Mand: In 1962 when I was first associated with this program, the first phase of this program was underway, at that time the development of manpower and human resource required for this program was initiated. A large number of people were sent abroad by the Pakistan Atomic Energy Commission for higher studies and to acquire PhDs, and they were sent to the world’s best universities and I also went to Oxford for my PhD during that time. So during the 1970s and 80s, manpower was further expanded and developed and trained.
Along with this, in the 1960s the Pakistan Institute of Nuclear Science and Technology, also known as PINSTECH was set up where a research reactor was established. At that time Pakistan consisted of two parts, East and West Pakistan, and at that time a research reactor and an atomic accelerator was also set up at Dhaka, and many scientists were also trained there.
So basically some facilities for research were set up in the country and people were sent abroad for higher studies. So when India conducted its atomic test in 1974, at that time our Prime Minister Zulfiqar Ali Bhutto sahib had already resolved that Pakistan would also run its own atomic program and nuclear weapons program, so when India conducted its test in 1974, this resolve transformed into practical reality
Hamid Mir: So we can say that research had begun in the 1960s….
Samar: Yes research had begun in the 1960s.
http://oraclesyndicate.twoday.net/stories/4167731/
The former Dutch Prime Minister, Ruud Lubbers, said in early August 2005 that the Government of the Netherlands knew of Dr. A.Q. Khan “stealing” the secrets of nuclear technology but let him go on at two occasions after the CIA expressed their wish to continue monitoring his movements.
http://en.wikipedia.org/wiki/Abdul_Qadeer_Khan
We seem to be in the habit of disgracing our pioneers and our achievers.
The Pakistani Spectator
http://www.pakspectator.com
کوئی بھی بھاڑ نہیں جھونکتا رہا، یہ ٹیم ورک ہی تھا۔ اگر قدیر خان مشہور ہو گئے اور دوسرے نہیں تو کیا بری بات ہے اسمیں؟
برا يہ ہے کہ قدير خان نے سب کا کريڈٹ خود لے ليا جو گھٹيا پن بھی ہے اور خلاف واقعہ بھي- اسلام ميں بھی جھوٹ اور بدديانتی جائز نہيں ليکن قدير خان اور اسکے اندھے عقيدت مندوں پر اسکا اطلاق نہيں ہوتا
قدير خان کو بابائے ايٹم بم کہنے والوں ميں کوئی کريڈيبل سائنسدان تو ہے ہی نہيں بلکہ اکثر تو نيوکليئر فزکس کی الف بے سے ہی لاعلم ہيں يعنی سارا کچھ اندھی عقيدت پہ چل رہا ہے-
افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کچھ لوگ بحث میں ادب کا دامن چھوڑ جاتے ہیں۔ جو اخلاقی لحاظ سے درست نہیں ہے۔
ڈاکٹر قدیرخان کو بابائے ایٹم بم اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ایک تو وہ ایٹم بم کی بنیادی ٹیکنالوجی لائے اور دوسرے انہوں نے اس پروگرام کو لیڈ کیا۔ یہ تو ازل سے اصول رہا ہے کہ جیتنے والی فوج کا کریڈٹ سپہ سالار کو جاتا ہے اور جیتنے والی ٹیم کا کریڈٹ اس کے کپتان کو حالانکہ جدوجہد مشترکہ ہوتی ہے ۔ دوسرے لیڈر کو کریڈٹ دینے کا مطلب پوری ٹیم کو کریڈٹ دینا ہوتا ہے۔
یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ ایٹمی ٹیکنالوجی بیچنے میں صرف ڈاکٹر قدیر شامل نہیںتھے بلکہ اس ٹیم میںبہت سارے دوسرے لوگ بھی شامل تھے پھر ڈاکٹر قدیر کو ہی کیوں پکڑا گیا۔ سزا دیتے وقت ٹیم کو نظر انداز کردینا اور شاباش دیتے وقت لیڈر کیساتھ کنجوسی برتنا کیا ٹھیک ہے۔
السلام علیکم!
بہت افسوس ہوتا ہے۔ یہ دیکھ کر۔
یہ نہیں ہونا چاہیے۔
جتنی جلدی ہو سکے ڈاکٹر صاحب کو رہا کر دینا چاہیے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر پاکستان ہی نہیں پورے عالم اسلام کے ہیرو ہیں
Leave A Reply