شاکرعزیز نے مدرسوں کے بارے میں اپنے ذاتی تجربے کی روشنی میں اظہار خیال کیا اور اس کے بعد نعمان نے بھی اپنے بھائی کے تجربات اور ذاتی مشاہدے کی بنا پر مدرسوں کی صورتحال پر بات آگے بڑھائی۔

دونوں بلاگر صاحبان نے مدرسوں میں گھٹن اور سختی کا ذکر کرکے تصویر کا ایک رخ پیش کیا ہے۔ اگر ہم اس گھٹن اور سختی کی وجوہات کا جائزہ لیں تو پھر انہی مدرسوں کی تصویر کا دوسرا رخ نظر آئے گا۔

گوروں نے ہم پر حکمرانی جس انداز سے کی وہی انداز ہم نے آزاد ہو کر اپنایا۔ گورے نے پولیس آفیسرز کا رعب و دبدبا لوگوں کے دلوں میں بٹھایا جو اب تک قائم ہے اور ہماری پولیس آج تک خدمت خلق کے اصول پر عمل نہیں کرسکی۔ مسلمان بادشاہوں کے لباس بیروں اور خدمت گزاروں کو پہنا دیے۔ مسلمانوں کے دلوں سے اسلام کی روح کو نکالنے کیلیے انگریزوں نے ان کے مذہبی رہنماؤں کی توقیر گھٹا دی۔

ہم ظاہری طور پر تو آزاد ہوگئے مگر ہمارے حکمران آج تک نہ خود انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوسکے اور نہ قوم کو آزاد ہونے دیا۔

گوروں کی روایات اب بھی مدرسوں اور مسجدوں میں نظر آتی ہیں۔ ہماری مسجدوں کے اکثر امام ہماری روٹیوں پر پلتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے مدرسے زکوٰة اور خیرات پر چلتے ہیں۔ ان مدرسوں میں پڑھنے والے اکثر بچے ان والدین کے ہوتے ہیں جو عام سکولوں میں نہ صرف ان کی تعلیم کا خرچہ برداشت  نہیں کرسکتے بلکہ ان کو پالنے کی طاقت بھی نہیں رکھتے۔ یہ فلاحی بنیادوں پر قائم مدرسے بچوں کو نہ صرف مفت تعلیم دیتے ہیں بلکہ ان کے طعام و قیام کا بھی بندوبست کرتے ہیں۔ ان مدرسوں کی نہ کوئی این جی او مالی مدد کرتی ہے اور نہ حکومت۔ ہمیں خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ یہ مدرسے ان بچوں کیلیے بہترین تربیت فراہم کرتے ہیں جو ماں باپ کی غفلت اور غریبی کی وجہ سے بھٹک سکتے ہیں۔  

 اب اس طرح کے مدرسوں سے ہم کس طرح کی تعلیم کی توقع رکھ سکتے ہیں۔ جس مدرسے کے استاد کی معقول تنخواہ نہیں ہوگی وہ آپ کو دو وقت کی روٹی کے بدلے کیا علم سکھائے گا۔

ان مدرسوں کی حالت سدھارنے کی نہ کسی این جی او نے کوشش کی ہے اور نہ حکومت نے۔ اس کی صرف اور صرف ایک ہی وجہ ہے یعنی اسلام کے دشمن نہیں چاہتے کہ ہم مسلمان پڑھ لکھ کر اپنے دین کو عملی طور پر اپنے اوپر نافذ کرسکیں۔ اسی لیے ہمیں نہ تو اکثر قرآن با ترجمہ پڑھایا جاتا ہے اور نہ دین کی تعلیم اپنی زبان میں دی جاتی ہے۔ بلکہ اکثر مدرسوں میں قرآن طوطے کی طرح رٹا دیا جاتا ہے اور بچہ حافظ بننے اور اسلام کا بنیادی علم حاصل کرنے کے بعد کوئی نہ کوئی مسجد سنبھال لیتا ہے۔

ان مدرسوں کو اگر ایچی سن یا کانونٹ سکولوں کالجوں کے برابر لانا ہے تو پھر ان کا بچٹ بھی ان اداروں کے برابر مقرر کرنا ہوگا۔ ہم مسلمانوں کی اکثریت بنی اسرائیل کی ہوچکی ہے جو خود تو کچھ نہیں کرتے اور خدا سے کہتے ہیں کہ وہی کچھ کرے۔ لیکن خدا تبھی کچھ کرنے کا وعدہ کرتا ہے جب اس کا بندہ ہاتھ پاؤں ہلاتا ہے۔ 

مدرسوں سے بہترین نتائج حاصل کرنے کا صرف اور صرف ایک ہی طریقہ ہے۔ یعنی ان کی مالی امداد کی جائے اور ان کے اساتذہ کو ٹریننگ دی جائے۔ جب اساتذہ جدید تعلیم سے آراستہ ہوں گے اور مدرسے خوشحال ہوں گے تو پھر مدرسوں سے گھٹن بھی ختم ہوجائے گی اور طلبا کے دلوں سے خوف بھی۔