پاکستان کے بڑے شہروں میں شادی کی تقریبات میں شامل ہونے اور دوسرے لوگوں سے روداد سننے کے بعد معلوم ہوا کہ اب شادی ایک یا دو دن نہیں بلکہ چار دن تک پھیل چکی ہے۔ لاہور میں ایک دوست کے ہم مہمان تھے۔ انہوں نے بتایا کل لڑکی والوں کی مہندی تھی اور ان کی فیملی اس میں شرکت کرکے رات تین بجے واپس لوٹی ہے ۔ آج انہوں نے لڑکے والوں کی مہندی پر جانا ہے۔ تیسرے دن شادی ہوگی اور چوتھے دن ولیمہ۔ اس طرح شادی مکمل ہوگی۔

 اسی طرح فیصل آباد میں ایک شادی میں شرکت کا موقع ملا۔ دونوں مذہبی گھرانے ایسے کہ دونوں سمدھی باریش اور پابند صوم و صلوۃ مگر مہندی کی رسوم دونوں گھروں میں دیکھ کر ایسا لگا جیسے کوئی ہندوستانی فلم دیکھ رہے ہیں۔ پھر بارات اور ولیمہ سرینا ہوٹل میں ہوا جس پر کم از کم دونوں گھرانوں کا پانچ پانچ لاکھ روپیہ خرچ ہوگیا ہوگا۔

 چاروں دن کی دونوں خاندانوں نے پروفیشنلز سے ویڈیوز بھی بنوائیں اور تصاویر بھی۔ دولہا دلہن کو ہر سین کیلیے اس طرح ایکٹنگ کرائی گئی جیسے کسی فلم کی شوٹنگ ہورہی ہو۔ بعض اوقات تو ری ٹیک بھی لینے پڑے۔سہاگ رات سے پہلے دولہا دلہن دو گھنٹے تک اپنی تصاویر پوز بدل بدل کر بنواتے رہے۔ بعد میں ان تصاویر کی البم بنے گی اور ایڈیٹنگ کے بعد ویڈیو ایسے ہی بنے گی جیسے کوئی فلم ہو۔ سنا ہے اس کا بھی معاوضہ  ہزاروں میں وصول کیا جاتا ہے۔

چاروں دن میوزک کا لائیو بندوبست تھا بلکہ ولیمے والے دن مجرہ بھی ہوا جس میں دولہا دلہن کے رشتے داروں نے خوب اودھم مچایا۔ مذہبی گھرانہ ہونے کے ناطے صرف شراب پر پابندی تھی یعنی بقول غالب کے سب آدھے مسلمان تھے۔ غالب کو انگریزوں نے گرفتار کرکے جب پوچھا کہ تم مسلمان ہو کہنے لگا آدھا۔ انہوں نے پوچھا وہ کیسے۔ فرمایا میں شراب پیتا ہوں مگر سور کا گوشت نہیں کھاتا۔ یہی حال اب ہم مسلمانوں کا ہوچکا ہے۔ ان شادیوں کو دیکھ کر پتہ ہی نہیں چلتا کہ پاکستان میں بجلی، آٹے اور گھی کا بحران آیا ہوا ہے۔ جنریٹر چل رہے تھے، بوفے کا ایسا انتظام تھا کہ ہرچیز تازی مل رہی تھی۔

ہم نے ایک آدھ دفعہ کوشش کی اس فضول خرچی اور بے حیائی پر صاحب خانہ سے بات کرنے کی مگر سب نے یہ کہ کر چپ کرادیا” بھائی شادی کبھی کبھی ہوتی ہے اور اگر خدا نے دے رکھا ہے تو خرچ ضرور کرنا چاہیے”۔ ہم چاہتے تھے انہیں کہیں” بھائی اگر خدا نے دیا ہے تو اسے طریقے سے خرچ کرو تاکہ خلق خدا کا بھی بھلا ہو اور آپ بھی دورخ کی آگ سے بچ سکو”۔ مگر اس وقت تو وہ لوگ بھی ترنگ میں نظر آئے جو عام حالات میں اسلام پر لمبی چوڑی تقاریر کرتے نہیں تھکتے۔

ہمارے خیال میں اس شادی پر کم از کم دونوں گھرانوں کا کل ملا کر پچاس لاکھ روپیہ خراچ ہوا ہوگا۔ اگر یہی رقم دولہا دلہن کو ویسے دے دی جاتی تو وہ اپنی عملی زندگی بہتر انداز میں شروع کرسکتے تھے۔  اس فضول خرچی کے دوسرے نعم البدل بھی تھے۔ دولہا دلہن کو ایک گھر خرید کر دے دیا جاتا، دلہن کو گاڑی جہیز میں دے دی جاتی، دولہا دلہن کے اکاؤنٹ میں رقم جمع کرادی جاتی جو وہ بعد میں اپنی مرضی سے خرچ کر سکتے۔

 ہوسکتا ہے ان دونوں خاندانوں کے پاس اس سے بھی زیادہ دولت ہو اور اتنا کچھ خرچ کرنے کے بعد بھی وہ نوبیاہتا جوڑے کو گاڑی بھی لے دیں اور گھر بھی۔ لیکن اس کے باوجود اتنی فضول خرچی اور بے حیائی کی کوئی تک نہیں بنتی۔

کیا واقعی لاہور، کراچی، فیصل آباد، پشاور وغیرہ میں ایسے ہی شادیاں ہورہی ہیں؟ کیا اس طرح شادیوں پر خرچ کرنے والے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو چکا ہے یا پھر دیکھا دیکھی لوگ ادھار اٹھا کر بھی ایسی شادیاں کررہے ہیں۔ اب تو سنا ہے شادیوں پر بنک بھی قرضہ دے دیتے ہیں۔