یہ تاریخی حقیقت رہی ہے کہ لوگ چڑھتے سورج کی پوجا کرتے ہیں۔ جب جنرل مشرف نے حکومت پر قبضہ کیا تو شیخ رشید، وصی ظفر، اعجاز الحق، چوہدری، مخدوم، خان سمیت تمام لوگ ان کی گود میں جاگرے۔ اب جب جنرل مشرف کا اقتدار ڈولنے لگا ہے تو یہ لوگ ایک ایک کرکے اپنے محسن اور باس کی ایسی تیسی کرنے لگے ہیں۔ یہی لوگ ہوتے ہیں جو ڈکٹیٹر کو دوام بخشتے ہیں، اس کے جرائم میں شریک ہوتے ہیں مگر جب ڈکٹیٹر کام کا نہیں رہتا تو پھر جمہوریت کی راگنی چھیڑ دیتے ہیں۔ ہم تو اس حق میں ہیں کہ آئین میں ایس تبدیلی کی جائے جو ڈکٹیٹر کے محاسبے کیساتھ ساتھ اس کے حواریوں کا بھی محاسبہ کرے۔

جب سرکاری افسر کی تبدیلی ہوتی ہے تو اس کے ماتحت اس سے آنکھیں پھیرنے میں ایک منٹ نہیں لگاتے۔ ہمارے ایک دوست فوج میں کیپٹن تھے جب ان کا تبادلہ ہوا تو انہوں نے اپنے کانوں سے نئے افسر کے سامنے اپنے چپراسی کے منہ سے اپنے خلاف الفاظ سنے۔

ہمارے بڑے بڑے موجودہ سیاستدان اور ریٹائرڈ جنرل ان چپراسیوں سے بھی گئے گزرے نکلے جنہوں نے پہلے تو جنرل مشرف کی ڈکٹیٹرشپ سے فوائد حاصل کیے اور بعد میں ان کے اقدامات یعنی لال مسجد کی تباہی، شمالی علاقوں میں فوج کشی، کارگل کی شکست، نو مارچ سے لیکے تین نومبر کے مارشل لا کو ناجائز قرار دیا اور اب ان کے محاسبے پر زور دینے لگے ہیں۔

وصی ظفر نے چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس سے لاتعلقی اختیار کرلی لیکن جب ان سے کہا گیا کہ تب انہوں نے استعفٰی کیوں نہیں دیا تھا تو خود کو ڈرپوک کہ کر جان چھڑا لی۔

پھر اعجازالحق نے لال مسجد پر حملے کو غلط قرار دیا اور کہا کہ وہ اس جرم میں شامل نہیں تھے۔ لیکن وہ بھی اس وقت تک جنرل مشرف کی چھتری کے سائے میں بیٹھے رہے جب تک جنرل مشرف کا سورج سوا نیزے پر رہا۔ جونہی جنرل مشرف کا سورج ڈوبنے لگا ہے اعجازالحق نے سارا الزام ان پر ڈال کر خود کو اس طرح بری الزمہ قرار دے دیا ہے جیسے وہ جنرل مشرف کی حکومت میں رہے ہی نہیں۔

رہی سہی کسر آج لیفٹینٹ جنرل رییٹائرڈ جمشید گلزار کیانی نے میرے مطابق پروگرام میں پیش ہو کر پوری کردی۔ انہوں نے نہ صرف جنرل مشرف کے سارے اقدامات کو پاکستان کیلیے تباہ کن قرار دیا بلکہ جنرل مشرف پر مقدمہ چلا کر انہیں عبرت کا نشان بنانے پر زور دیا۔ یہ پہلی دفعہ سننے میں آیا ہے کہ ایک جنرل دوسرے جنرل کا محاسبہ کرنے کی بات کر رہا ہے۔ جنرل جمشید کیانی تو جنرل مشرف کے اس احسان کو بھی بھول گئے کہ انہوں نے انہیں فیڈرل پبلک سروس کا چیئرمین مقرر کیا تھا۔ پتہ نہیں بعد میں ان دونوں جنرلوں کی آپس میں کیا ان بن ہوئی کہ جنرل مشرف نے ان کے عہدے کی میعاد پانچ سال سے کم کرکے تین سال کرکے ان سے جان چھڑا ئی۔ جنرل کیانی نے یہ بھی بتایا کہ ان کے دور میں وزیراعظم نے مداخلت کرکے دو پولیس آفیسرز کو ناجائز ترقی دلوائی۔

چہ جائیکہ جنرل جمشید کیانی اس وقت وزیراعظم کے غلط اقدام پر اپنے عہدے سے استعفٰی دیتے وہ تب تک ڈٹے رہے جب تک انہیں زبردستی گھر نہیں بھیج دیا گیا۔ جنرل کیانی نے جنرل مشرف کے سارے اقدامات کو ملکی مفاد کیخلاف قرار دیا مگر اپنی نوکری کے دوران وہ ان کے ماتحت کام کرتے رہے اور انہیں نوکری چھوڑنے کی جرات تک نہ ہوسکی۔

اگر جنرل جمشید کیانی اتنے ملک اور قوم کے ہمدرد ہیں تو وہ جنرل مشرف کیخلاف غداری کا مقدمہ درج کرانے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا سکتے ہیں جہاں وہ وعدہ معاف گواہ بن کو خود جنرل مشرف کو عبرت کا نشان بنا کر قوم پر احسان کر سکتے ہیں۔ لیکن وہ ایسا نہیں کریں گے کیونکہ وہ پہلے بھی بزدل تھے اب بھی بزدل ہیں۔

اب ہر کوئی جنرل مشرف کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ چکاہے وہ اسلیے کہ جنرل مشرف بے اختیار ہوچکے ہیں۔ مزہ تو تب ہے کہ قوم کے ہمدرد موجودہ حکمرانوں کے جرائم کی نشاندہی کریں اور انہیں عبرت کا نشان بنانے کی خواہش کا اظہار کریں۔ آصف زرداری اور نواز شریف این آر او کے ذریعے پاک صاف ہو کر دوبارہ عنان اقتدار سنبھال چکے ہیں۔ اب نہ کوئی ان کی کرپشن کا ذکر کرتا ہے نہ ظلم و زیادتی کا۔ کل جب وہ پھر زیرعتاب آئیں گے تو یہی لوگ ان کیخلاف بھی زہر اگلنا شروع کردیں گے۔

ثابت یہی ہوا کہ اگر آپ ظالم کی طاقت سے ڈر کر دبک جاتے ہیں اور کمزور پر چڑھائی شروع کردیے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ بزدل اور دل کے کھوٹے ہیں۔ یعنی آپ خود بھی چڑھتے سورج کے مظالم میں شریک رہے ہیں اور اب ڈوبتے سورج پر تھوک کر اپنے گناہوں کا کفارہ اسی طرح ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس طرح ایک بوڑھا گناہگار مسلمان حج کرکے پاک ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ خدا دلوں کے حال خوب جانتا ہے۔ ہم مسلمانوں کو تو فریب دے سکتے ہیں مگر خدا کو نہیں۔