پاکستان ايک غريب اور ترقي پزير ملک ہے اور جب سے يہ ملک قائم ہوا ہے اس کا اسٹيٹس ترقي پزير ہي ہے۔ پاکستان کے معرض ِوجود ميں آنے کے بعد جو ملک دنيا کے نقشے پر ابھرے ان ميں کئ اب ترقي يافتہ ہيں۔ پاکستان ترقي پزير سے ترقي يافتہ کيوں نہيں بن سکا اس کي کئ وجوہات ہيں۔
١- تعليم کي کمي
٢۔ بدعنوان معاشرہ
٣۔ بدعنوان حکمران
٤۔ غدّاروں کي بہتات
يہ مسائل پاکستان کے بننے کے بعد سے اب تک ملک کو ديمک کي طرح چمٹے ہوۓ ہيں اور ان پر کسي حکومت نے اپني ذاتي خواہشات کي بنا پر توجہ نہيں دي۔ کچھ مسائل ہميں انگريزوں نے ورثے ميں ديۓ ہيں اور ہم نے انہيں اسلۓ ختم نہيں کيا کہ اس طرح عام لوگوں پر ہماري اجارہ داري ختم ہو جاتي۔
اگر ہم ان مسائل کا تفصيلي جائزہ ليں تو نتيجہ يہ نکلتا ہے کہ ہماري قوم کا شعور اتنا نہيں ہے کہ وہ اچھے برے کي تميز خودغرضي سے ہٹ کر سکے اور نہ ہي ہماري قوم ميں ظالموں کے خلاف مدافعت کي قوت ہے۔ اس کا سبب ہماري نظر ميں تعليم کا فقدان بھي ہے۔
تعليم کو عام کرنا حکومت کيلۓ آسان ہے مگر ماضي پر اگر نظر دوڑائيں تو حکومت سے اس بارے ميں توقع بے سود ہے۔ اس کے بعد رہ جاتي ہيں سياسي پارٹياں مگر ان کے منشور ميں بھي قوم کي عملي خدمت کہيں نظر نہيں آتي۔ پھر آتے ہيں ہمارے مدرسے اورپيروں کے ڈيرے اور اگر وہ اکٹھے ہو جائيں تو کام بن سکتا ہے مگر تفرقہ بنديوں نے يہ کام بھي مشکل کرديا ہوا ہے۔
ايک حل تعليم عام کرنے کا يہ ہے کہ عوام خود اپني آنے والي نسل کو تعليم کے زيور سے آراستہ کريں اور اس کيلۓ انہيں وقتي طور پر بہت ساري قرباني ديني پڑے گي جو وہ دينے کو تيار نہيں ہيں۔
ان حالات ميں يہ کام صرف اور صرف عبدالستّار عيدھي، عمران خان يا ابرارالحق کي طرح کا کوئي محبِ وطن اور مخلص آدمي ہي کرسکتا ہے۔ ہميں ہسپتالوں کي ضرورت اور ايمرجينسي طبي امداد کي اہميت سے بالکل انکار نہیں ہے مگر سب سے اہم کام تعليم کيلۓ ان کي قرباني دے سکتے ہيں۔ قوم اگر پڑھ لکھ گئي تو پھرہسپتال بھي بنا لے گي اور عيدھي جيسے جزبہ خدمت سے بھي سرشار ہوجاۓگي۔
يہي تعليم يافتہ لوگ بدعنواني پر بھي قابو پاليں گے اور لوٹون کا بھي محاصرہ کرليں گے۔ تعليم ہي کي وجہ سے ہم لوگ اپنے حقوق کي جنگ لڑسکيں گے اور کسي کو اپنے معاملات ميں مداخلت بھي نہيں کرنے ديں گے۔