کل لاہور میں وزیراعظم کی آمد پر بہت بڑا ٹریفک جام دیکھنے کو ملا۔ لوگ گھنٹوں ٹریفک میں پھنسے رہے اور حکمرانوں کو بدعائیں دیتے رہے۔ حتی کہ میاں نواز شریف بھی اس ٹریف جام سے نہ بچ سکے۔ ہو سکتا ہے کل کے تجربے سے وہ بھی سبق سیکھیں اور حکمرانوں کے پاس نہ صرف اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں بلکہ جب خود حکمران بنیں تو اس طرح کی زحمت سے عوام کو بچائیں۔ میاں صاحب ٹریفک جام کی مستقل زحمت سے چھٹکارے کیلیے اپنے ارکان اسمبلی کو ایوان میں قرارداد پیش کرنے کی ہدایت بھی کر سکتے ہیں تا کہ اس مسئلے کا کوئی مستقل حل تلاش کیا جا سکے۔ لیکن ہماری یہ خواہش شاید کبھی پوری نہ ہو سکے کیونکہ حکمران بنتے ہی سیاستدانوں کو یہ سب کچھ بھول جانے کی بیماری بہت پرانی ہے۔
اگر میاں صاحب یا کسی اور ہمدرد رکن اسمبلی کا ایسا پروگرام بنے تو وہ ہماری تجاویز پر بھی غور کر سکتے ہیں۔ ہم چاہیں گے کہ عمارتوں سمیت تمام منصوبوں کے افتتاح پر پابندی لگا دی جائے۔ یا اگر افتتاح کرنا ہی ہے تو پھر سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی طرح اصل مقام پر جانے کی بجائے تقریب گورنر ہاوس وغیرہ میں منعقد کریں اور حکمران خود ہیلی کاپٹر کے ذریعے پہنچیں۔
اس تجویز کے پیچھے بہت سارے فوائد ہیں یعنی حکمران ایک تو عوام کی بدعاوں سے بچیں گے اور دوسرے لوگوں کا قیمتی وقت بھی برباد نہیں کریں گے۔
ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ تعمیراتی منصوبوں کے افتتاح سے حکمرانوں کو کیا حاصل ہوتا ہے۔ یہ اصل منصوبہ شروع کرنے والے کیساتھ زیادتی ہوتی ہے کہ منصوبہ وہ شروع کرتا ہے اور اس کی تکمیل پر تختی کسی اور کی لگ جاتی ہے۔ اگر افتتاح کا مقصد تختی ہی لگانا ہوتا ہے تو وہ بناں پہنچے وہاں لگائی جا سکتی ہے۔ اگر افتتاح کی تصاویر بنانا بھی مقصود ہے تو وہ بھی آجکل کے ترقی یافتہ دور میں سٹوڈیو میں ہی بن سکتی ہیں۔ تو پھر سخت گرمی میں عوام کو جھلسانے کی کیا ضرورت ہے۔
حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ لوگوں کے صبر کو اتنا نہ آزمائیں کہ ایک دن وہ ان کے کارواں کو اپنے ٹریفک جام میں ہی گم کر دیں۔ ویسے آفرین ہے عوام پر کہ وہ اتنے بڑے عذاب کو خندہ پیشانی سے جھیل رہے ہیں۔
8 users commented in " حکمران رحمت کی بجائے زحمت "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackhttp://www.jang.net/jm/5-24-2009/pic.asp?picname=4635.gif
پاکستان پر اصل حکومت کس کی ہے؟
وزیراعظم کچھ کہتے ہیں، وزراء کچھ۔
کسی کو عوام کا درد نہیں بس پروٹوکول اور مال سے مطلب ہے۔
جن حرام زادوں نے فوج کو آپریشن پر اکسایا وہی آج سوات کے متاثرین کو صرف سرحد تک محدود کرنے پر بضد ہیں اور جانور قوم پھر بھی انہیں کے پیچھے چلنے کو تیار ہے۔
عابد::جانور قوم؟ مت کہیے صاحب ایسا!
آفرین یا لعنت؟
خیر ہوئے جاوید ہاشمی دی۔ کی کہہ سی انے “کبھی ایسانہ ہو۔۔۔۔۔
“ تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد“
کوئی مہربانی کر کے چوہدری صاحب کو پنجابی سکھانے کا بیڑہ اٹھا لے
یار ڈفر اے نیکی تسی اپنے کہاتے وچ کیوں نہیں لے لیتے ہو۔
عابد صاحب جن حرام زادوں نے انہیں پالا تھا ان کے بارے میں بھی کچھ گل افشانی فرمادیتے تو اچھا ہوتا،
ویسے سوات متاثرین کو روکنے کی بات سب سے پہلے شہباز شریف اور مخدوم جاوید ہاشمی نے کی تھی اب وہ حرام زادے ہیں یا نہیں اس کے بارے میں تو آپ ہی بہتر بتا سکتے ہیں:)
جانور قوم!
Leave A Reply