ايک وہ زمانہ تھا جب شہر ميں دو چار رشوت خور ہوتے تھے اور اب يہ وقت ہے کہ سارے شہر ميں دو چار ايماندار لوگ مليں گے۔ ہميں ياد ہے کہ رشوت والے دوچار محکمے بڑے مشہور ہوتے تھے ان ميں پوليس، پٹواري، واپڈا اور ٹيليفون کے محکمے سرِفہرست تھے مگر اب تو شائد ہي کوئي محکمہ ہو جو رشوت نہ لينے والوں کے بغير چل رہا ہو۔
اب تو يہ حال ہے کہ آپ نے ريلوے کي بکنگ کراني ہو تو رشوت ضروري ہے۔ گھر کا نقشہ پاس کرانا ہو يا گھر اپنے نام لگوانا ہو تو رشوت ديۓ بغير چارا نہيں۔ حد تو يہ ہے کہ بچے کو سکول داخل کرانے کيلۓ بھي رشوت درکار ہے۔
رشوت لينا دينا اب حرام بھي نہيں سمجھا جاتا اور نہ ہي واعظ اس بارے ميں اب بات کرتے ہيں کيونکہ ان کي کمائي بھي اسي رشوت کے پيسے ميں سے ہي آتي ہے۔ اس رشوت نے قوم کو سست الوجود بنا کے رکھ ديا ہے۔ اب لوگوں کا محنت سے جي چرانا عام سي بات ہو چکي ہے اور طالبعلموں نے بھي پڑھنا چھوٹ ديا ہے کيونکہ جب محنت کے بعد انہیں ايک اور داخلہ ٹيسٹ دينا پڑتا ہے تو ان کابرا حال ہو جاتا ہے۔
اس رشوت سے چھٹکارے کے دو ہي طريقے ہيں اور وہ ہيں قانون کي حکمراني اور لوگوں کي اچھي تربيت۔ اگر ہم اپني آنے والي نسل کي تربيت اسلامي اصولوں پر کرسکيں تو رشوت کا مرض ختم ہو سکتا ہے۔ دوسرے اگر حکومت قانون پر عمل کراۓ اور سب کو يکساں انصاف فراہم کرے تو پھر بھي رشوت سے جان چھڑائي جاسکتي ہے۔ مگر يہ دونوں کام کسي معجزے کے بغير ہوتے ہوۓ نظر نہيں آتے۔ دعا ہے کہ خدا ہمارے دلوں ميں نيکي کا جزبہ پيدا کرے اور حکومت کو قانون کي حکمراني قائم کرنے کي توفيق عطا فرماۓ۔ آمين