انیس سو ستر کی داہائی میں نیا نیا ٹی وی شروع ہوا تھا جو پہلے بلیک اینڈ وہائٹ ہوتا تھا اور بعد میں کلر ہو گیا۔ ٹی وی سے پہلے تفریح اور ذرائع ابلاغ کا ذریعہ ریڈیو ہی ہوا کرتا تھا۔

اس وقت مڈل ایسٹ میں تیل کی دولت نے بہت سارے پاکستانیوں کو اپنی طرف راغب کیا اور لاکھوں پاکستانی روزگار کیلیے دبئی چلے گئے۔ اس تبدیلی سے قبل بہت کم لوگوں کے گھروں میں برقی آلات ہوا کرتے تھے۔ آ جا کر ایک ریڈیو ہی تھا جو گھروں اور دکانوں پر دن رات بچا کرتا تھا۔ شیزان ہٹ پریڈ، چمہور دی آواز، بچوں کا پروگرام آپا شمیم، تلقین شاہ، آپ کی پسند، قوالی، ہاکی اور کرکٹ کمنٹری، ذراعت کا پروگرام، فوجی بھائیوں کا پروگرام وغیرہ بہت مقبول ہوا کرتے تھے۔

پھر دبئی پلٹ لوگ ریکارڈ پلیئر لے آئے جو پہلے پہل کھلی اور بڑی ٹیپ کے فیتے پر چلا کرتے تھے لیکن بعد میں جلد ہی موجودہ کیسٹوں کی آمد شروع ہو گئی۔ اس دور میں ہم بھِی ریڈیو سنا کرتے تھے جو کبھی کبھار سونے کے دوران زمین پر بھِی گر جایا کرتا تھا۔ پھر کیسٹیں خریدنا شروع کر دیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کا بہت بڑا ذخیرہ جمع کر لیا جو اب عدم دلچسپی کی وجہ سے ضائع ہو چکا ہے۔

اس وقت ہم ریڈیو سیلون جو بعد میں ریڈیو سری لنکا کہلوایا کا پروگرام بناکا گیت مالا بہت شوق سے سنا کرتے تھے۔ سنا ہے اس پروگرام کو نوے کی دہائی میں بھارتی ریڈیو پر منقتل کر دیا گیا۔ اس پروگرام کے اینکر امین سایانی ہوا کرتے تھے جن کی نقل کرتے ہوئے کچھ لوگوں نے کیسٹیں بھی ریلیز کیں۔ ان صاحب کا بولنے کا انداز بہت نرالا ہوا کرتا تھا۔ اس پروگرام میں ریکارڈ پلیئرز کی بکری کے مطابق گانوں کو ترتیب دیا جاتا اور ایک گھنٹے کے پروگرام میں لگ بھگ سولہ گانے ہوا کرتے تھے۔ جو گانا شاید سولہ ہفتے اس پروگرام میں بجتا اسے سال کے بہترین گیتوں میں شامل کر لیا جاتا اور پھر سال کے آخر میں ایک پروگرام ہوتا جس میں سولہ بہترین گیت پیش کئے جاتے اور چوٹی پر آنے والا گانا سال کا بہترین گانا ہوا کرتا تھا۔

پاکستان ریڈیو نے اس کی طرز پر شیزان ہٹ پریڈ شروع کیا جس کے اینکر حسن جلیل ہوا کرتے تھے جو بعد میں کرکٹ پر کمنٹری کرنے لگے۔ یہ پروگرام آگے چل کر بند ہو گیا۔

اس دور میں ریڈیو کرکٹ اور ہاکی کی کمنٹری سننے کیلیے بھی خوب استعمال ہوتا تھا جن کے گھروں میں ریڈیو نہیں ہوتے تھے وہ بازار میں کسی چائے والے کے ہوٹل میں بیٹھ کر کمنٹری سنا کرتے تھے یا آتے جاتے ریڈیو والے سے سکور پوچھ لیا کرتے تھے۔ ہمیں میونخ اولمپکس کی کمنٹری اب تک یاد ہے جس میں پاکستانی ٹیم نے جرمنی سے فائنل ہارنے کے بعد اپنے تمغے جوتوں میں ڈال لیے تھے اور بعد میں اس پر پابندی لگا دی گئی

ریڈیو اور ٹی وی نے انیس سو ستر کے انتخابات میں بھِی خوب کام دکھایا۔ لوگ رات کو باہر بیٹھ کر انتخابات کے نتائج ریڈیو پر سن رہے تھے اور جونہی کہیں سے پی پی پی کے امیدوار کی کامیابی کا اعلان ہوتا لوگ بھنگڑا ڈالنا شروع کر دیتے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے جوش خطابت سے ہم ریڈیو اور ٹی وی کی معرفت ہی متعارف ہوئے جس نے دیکھتے ہی دیکھتے عوام کو اپنی گرفت میں لے لیاا ور ہر کوئی جئے بھٹو کے نعرے لگانے لگا۔

اسی ریڈیو پر ہم نے اکہتر کی جنگ کے ملی نغمے بھی سنے جن میں نورجہاں اور عنایت حسین بھٹی کے نغموں نے شہرت پائی۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے وقت ہتھیار ڈالنے کی کاروائی ہم نے انڈین ریڈیو پر سنی اور ٹی وی پر بھِی دیکھی جس کے غمزدہ اثرات سے ہم اب تک باہر نہیں نکل سکے۔

ریڈیو پر خبریں پڑھنے کا ایک مخصوص انداز ہوتا تھا اور اس انداز کو ٹی پر کچھ عرصے تک جاری بھی رکھا گیا مگر بعد میں یہ انداز متروک ہو گیا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے قبل خبریں اردو، بنگلہ اور انگریزی میں پڑھی جاتی تھیں۔