پاکستان تاریخ کی بدترین سیلابی تباہکاری سے گزر رہا ہے اور حکمران پارٹی کا چیئرمین جو پاکستان کا صدر بھی ہے غیرملکی دورے پر چلا گیا ہے۔ سنا ہے اس دورے کا اولین مقصد بلاول زرداری کو سیاسی دھارے میں داخل کرنا ہے۔
میڈیا اور سیاستدان پہلے ہی شور مچا مچا کر تھک چکے ہیں کہ یہ وقت غیرملکی دورے کا نہیں تھا اور جو کروڑوں روپے اس دورے پر خرچ ہونے تھے وہ اگر سیلاب زدگان کی مدد کیلیے خرچ کر دیے جاتے تو صدر زرداری کی مقبولیت کے گرتے گراف میں بہتری آ سکتی تھی۔ مگر یہ تاریخی سچ ہے کہ جب پاکستانی سیاستدان حکمران بنتا ہے تو وہ اپنے مستقبل کی فکر کرنے کی بجائے اپنے حال سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ یہی وجہ ہے موجودہ حکمران لوٹ کھسوٹ میں مشغول ہیں اور انہیں اگلے انتخابات کی کوئی فکر نہیں ہے۔
ابھی ملک سیلاب کی آفت سے بھی باہر نہیں نکل پایا کہ کراچی نسلی فسادات کی آگ میں جلنے لگا ہے۔ ایم کیو ایم کے ایم پی اے کے قتل کے بعد حالانکہ ایم کیو ایم نے تین روزہ پرامن سوگ کا اعلان کیا تھا مگر سب کو معلوم تھا کہ یہ قتل بہت سارے دوسرے قتلوں کا پیش خامہ ثابت ہو گا۔ یہی ہوا ایک دن میں درجنوں لوگ قتل ہو گئے اور کروڑوں روپے کی املاک کو جلا کر راکھ کر دیا گیا۔
اتنے بڑے دو سانحات نے بھی صدر زرداری کے دل پر اثر نہیں کیا۔ کوئی ذی شعور اور ترقی یافتہ ملک کا سربراہ ہوتا تو وہ غیرملکی دورہ ترک کے واپس آ جاتا۔ مگر ہمارے صدر زرداری پہلے تو اپنے ملک کو آسمانی آفت میں مبتلا تنہا چھوڑ گئے اور اب کراچی میں جاری انسانی آفت نے بھی ان کا دل نہیں پسیجا۔ تبھی تو وہ دانت نکال نکال کر اپنے بیٹے اور بیٹي کو غیرملکی سربراہان سے متعارف کروا رہے ہیں اور ٹھنڈی ہواؤں کے مزے لوٹ رہے ہیں۔
آپ کو یاد ہو گا ۲۰۰۸ کے انتخابات سے قبل صدر زرداری نیویارک میں ذہنی بیماری میں مبتلا تھے اور اپنا علاچ کر وا رہے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے حالات کو ایسے بدلا کہ وہ اپنا علاج ادھورا چھوڑ کر ایوان صدر جا پہنچے۔ کہیں وہ اب بھی تو اس ذہنی بیماری میں مبتلا تو نہیں کیونکہ ان کا بات بات پر دانت نکال کر ہنسنا لوگوں کو شک میں ڈال دیتا ہے۔
6 users commented in " کراچی میں مارا ماری، سیلاب کی تباہ کاری اور صدر زرداری "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackصدر زرداری کا شہر نوابشاہ ڈوبنے کے در پر ہے اور صدر تفریح پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کراچی میں مارا ماری نہیں بلکہ خاص منصوبہ بندی کے تحت قتل و غارت کا بازار گرم ہے۔ جس میں مکروہ عزائم کے ساتھ ہر کوئی اپنے ہاتھ رنگ رہا ہے۔
جاويد گوندل صاحب نے ٹھيک کہا ہے ۔ ميرا بھی يہی خيال ہے
کراچی کے مسائل اور اسکے حل پر یہ مضمون کافی حد تک روشنی ڈالتا ہے مگر کراچی کے نام نہاد ہمدردوں نے اس پر تبصرہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی!
http://dosrarukh.wordpress.com/2010/08/02/48/
تو زردار عوام کیلئے کیسے زر استعمال کرے گا۔
عوام ہیں نا ایسے وقتوں کیلئے چندے دیں گے۔
آپ ان جھاڑیوں کو صاف بھی کرتے ہیں پھر بھی کوئی پھنس ہی جاتا ھے۔
آپ کا کوئی قصور نہیں جی۔
میرا کام تو لوگوں کو آئینہ دکھانا ہے وہ میں کرتا رہوں گا اب اگرشکل ہی بری ہو تو آئینہ بےچارہ کیا کرے!!!
🙂
Leave A Reply