موجودہ حکومت میں ایک سے ایک بڑھ کر بیوقوف شامل ہے۔ کسی کو معلوم نہیں کہ لمبے عرصے تک کس طرح حکومت کی جاتی ہے۔ چل چلاو کا دور ہے اور ہر کوئی بناں سوچے سمجھے بولے جا رہا ہے اور ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ یہ نہ اس کی پارٹی کا موقف ہے اور نہ اس کی حکومت کا بلکہ یہ اس کی ذاتی رائے ہے۔ خدا کے بندو ذاتی رائے دو مگر اپنی پارٹی اور حکومت سے مشورہ کر کے۔ اب وزیر مملکت دفاعی پیداوار قیوم جتوئی کو ہی لے لیجیے۔ وزیر دفاعی پیداوار کے تھے اور غصہ بھی ان پر نکال رہے تھے جو دفاعی پیداوار کے مالک ہیں یعنی پیدا بھی کرتے ہیں اور استعمال بھی کرتے ہیں۔ اب اگر آپ انہیں کھری کھری سنائیں گے تو وہ آپ کو باس تھوڑا ہی رہنے دیں گے۔ وہی ہوا جس دن جتوئی صاحب نے ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو کر بناں سوچے منہ کھولا اسی دن استعفے کا مچھر ان کے منہ میں چلا گیا اور ان کی وزارت کا دروازہ ان کیلیے بند کر دیا گیا

لگتا ہے جتوئی صاحب ہوش میں نہیں تھے کیونکہ ہوش و ہواس رکھنے والا انسان اپنے پاوں پر کلہاڑی کبھی نہیں مارتا۔ اب اس طرح کے بیانات نشے میں دھت کوئی چرسی شرابی ہی دے سکتا ہے ایک حکومتی سیاستدان نہیں۔

پیپلز پارٹی فوج سے ڈرنے والی نہیں، فوج کو وردی اور بوٹ ہم نے پہنائے ہیں۔

بھٹو، بینظر اور بگٹی کو فوج نے قتل کیا۔

کرپشن میں بھی مساوات ہونی چاہیے

چیف جسٹس افتخار چوہدری کا تعلق فیصل آباد سے ہے اور وہ جعلی ڈومیسائل پر بلوچستان کے کوٹے پر جج بنے۔

پھر وہی ہوا جو ایک شرابی کیساتھ ہوتا ہے یعنی وہ گندی نالی میں اوندھے منہ گرتا ہے اور راہ گیر اسے اٹھاتے تک نہیں۔ جتوئی صاحب نے بڑھک ماری، میڈیا میں ایک دن رہے اور شام کو گھر چلے گئے۔