مشرقی پاکستان کو ہم سے الگ ہوئے چالیس سال ہو گئے اور ہمارے عوام اور حکمرانوں کی بے حسی کی انتہا دیکھیں کہ کسی نے اس دن نہ سوگ منایا اور نہ اپنی غلطیوں پر ماتم کیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم سولہ دسمبر والے دن کو عبرت کے طور پر مناتے اور اس طرح کی تدابیر کرتے کہ ایسا حادثہ دوبارہ وقوع پذیر نہ ہو۔ اس دن ہم بنگلہ دیش کے لوگوں کو خیرسگالی کے پیغامات بھیجتے اور انہیں دوبارھ اپنےقریب لانے کی کوشش کرتے۔ حکمران حمودالرحمن کمیشن کی فائل کو کھولتے اور اس میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی وجوہات پر غور کرتے۔ بنگلہ دیش میں پھنسے ہوئے بہاریوں کو واپس لانے کی تدبیر کرتے اور ان کی حوصلہ افزائی کیلیے انہیں تحائف بھیجتے۔
لیکن ہم بے حس ہو چکے ہیں ہمارے پڑوس میں کوئی مر جائے ہمیں اس کی اب اطلاع نہیں ہوتی۔ ہمیں اپنے بہن بھائیوں کی فکر نہیں رہی کیونکہ ہم خودغرض ہو چکے ہیں۔ بڑے سے بڑا سانحہ گزر جائے ہم اگلے دن پھر اپنے معمولات زندگی میں کھو جاتے ہیں۔
کاش جس طرح مشرقی اور مغربی جرمنی دوبارہ ایک ہو گئے اسی طرح مشرقی اور مغربی پاکستان بھی دوبارہ ایک ہو سکتے۔ ہم دوبارہ ایک ہو سکتے ہیں اگر دونوں ایک دوسرے کیلیے قربانی ديں اور خودغرضی کے خول سے باہر نکل آئیں۔ لیکن یہ خواہش مستقبل قریب میں پوری ہوتی نظر نہیں آتی کیونکہ یہ نہ تو ہمارے حکمرانوں کے مفاد میں ہے اور نہ غیرملکی طاقتوں کے مفاد میں۔
بنگلہ دیش اس چھوٹی سی بات پر اڑا ہوا ہے کہ پاکستان بنگلہ دیش کی علیحدگی کی تحریک کے دوران ہونے والی زیادتیوں پر معافی مانگے اور پاکستان اسے اپنی توہین سمجھتا ہے۔ حالانکہ اس وقت پاکستان کی جتنی توہین دہشت گردی کی جنگ میں ہو رہی ہے بنگلہ دیش سے معافی مانگنا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔