کرکٹرز انضمام الحق، محمد یوسف، عبدالرزاق اور عمران فرحت نے انڈین کرکٹ لیگ جوائن کرلی ہے۔ اس کے علاوہ جنوبی افریقہ کے دو کھلاڑیوں اور ویسٹ انڈیز کے برائن لارا نے آئی سی ایل کو جوائن کیا ہے۔

 ابھی تک آئی سی ایل کو نہ تو انڈین کرکٹ بورڈ نے منظور کیا ہے اور نہ ہی پاکستان کرکٹ بورڈ نے اپنے کھلاڑیوں کو آئی سی ایل سے معاہدے کرنے کی اجازت دی ہے بلکہ معاہدہ کرنے والوں پر قومی ٹيم میں کھیلنے پر پابندی کا عندیہ دیا ہے۔

ہمارے خیال میں اگر حکومت ٹینس کھلاڑی اعصام الحق کو اسرائیلی اور انڈين کھلاڑيوں کیساتھ ڈبلز میچ کھیلنے کی اجازت دے سکتی ہے تو پھر کرکٹرز پر آئی سی ایل کو جوائن کرنے کی پابندی نہیں لگانی چاہیے۔ آئی سی ایل میں کھیلنا ایسے ہی ہے جیسے انگلینڈ میں کاؤنٹی کرکٹ کھیلنا یہ الگ بات ہے کہ کاؤنٹي کرکٹ انگلینڈ کرکٹ بورڈ کے زیر اہتمام کھیلی جاتی ہے اور آئی سی ایل کی بھارتی کرکٹ بورڈ منظوری نہیں دی۔ اب جبکہ موجودہ حکومت انڈيا کیساتھ دوستی کا ہاتھ اس قدر بڑھا رہی ہے کہ کشمیر پر بھی سودے بازی کرنے پر تلی ہوئی ہے تو پھر اگر کرکٹ کے کھلاڑیوں پر پابندی لگی تو وہ دوغلہ پن ہی ہوگا۔

اگر پی سی بی اپنی ضد پر قائم رہتی ہے یعنی وہ آئی سی ایل کھیلنے والوں کو قومی ٹيم میں شامل نہیں کرتی تو پھر محمد یوسف اور عمران فرحت خسارے میں رہیں گے۔ ہمارے خیال میں انہیں قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجيح دینی چاہیے تھی۔ محمد یوسف کو مانا کہ ٹونٹي 20 ٹورنامنٹ کیلیے نہیں چنا گیا مگر پی سی بی انہیں ون ڈے اور ٹیسٹ کرکٹ کھلانے کیلیے تیار تھا۔ 

 انضمام الحق چونکہ پی سی بی سے مایوس ہوچکے ہیں اور انہیں اب کم ہی امید ہے کہ وہ پاکستان کی طرف سے ٹیسٹ کرکٹ کھیل سکیں گے اس لیے ان کا فیصلہ درست ہے۔ اس سے پیشتر انہوں نے اپنی پوری کوشش کی کہ ٹیسٹ کرکٹ کھیل سکیں تاکہ وہ سب سے زیادہ رن بنانے والے پاکستانی کھلاڑی کا اعزاز حاصل کر سکیں مگر لگتا ہے ان کی داڑھی ان کے آڑے آگئی وگرنہ پی سی بی انہیں ایک آدھ ٹیسٹ آسانی سے کھلا سکتی تھی۔  قومی مفاد کا تقاضا بھی یہی تھا کہ انہیں ریکارڈ بنانے کا موقع فراہم کیا جاتا۔

عبدالرزاق کچھ عرصے سے اپنی فٹنیس پر توجہ نہیں دے رہے تھے اسلیے ان کی کارکردگی دن بدن گرتی جارہی تھی۔ انہوں نے ٹيسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے کر اپنی عزت کی لاج رکھ لی۔ اگر انہوں نے اپنی فٹنیس کا اب بھی خیال نہ رکھا تو وہ کاؤنٹي اور آئی سی ایل دونوں میں فیل ہوسکتے ہیں۔ ابھی وہ ستائیس برس کے ہیں اور ان کے پاس مزید ایک عشرہ پڑا ہے کھیلنے کیلیے۔ اسلیے انہیں اپنی فٹنیس پر توجہ دینی پڑے گی۔

عمران فرحت جوان ہے اسے قومی ٹيم میں شمولیت کیلیے انتظار کرنا چاہیے تھا۔ تب تک وہ کاؤنٹی کرکٹ کھیل سکتا تھا۔ اس نے آئی سی ایل جوائن کرکے شارٹ کٹ مارنے کی کوشش کی ہے۔ اللہ کرے اس کا شارٹ کٹ اسکے مستقبل کو تاریک ہونے کی بجائے تابناک بنائے۔ ہم ابھی بھی امید کرتے ہیں کہ وہ ایک دن قومی کرکٹ ٹیم میں واپس آجائے گا۔

ویسے یہ گلوبل ورلڈ کا دور ہے اب ایک ملک کے کھلاڑی کو دوسرے ملک میں کھیلنے سے نہیں روکنا چاہیے۔ اگر اس کا دوسرے ملکوں کی تنظیموں کیساتھ معاہدہ اس کے قومی ٹيم میں کھیلنے میں رکاوٹ نہیں بنتا یعنی وہ اپنے شیڈول کو اس طرح ترتیب دیتا ہے کہ قومی ٹيم کے سارے میچ کھیل سکے تو پھر اس کے کھیل پر پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ ہاں اگر اس کی کارکردگی دوسری تنظیموں میں شامل ہونے سے متاثر ہوتی ہو تو پھر کرکٹ بورڈ کھلاڑی کو دونوں میں سے ایک آپشن چننے پر مجبور کرسکتا ہے۔