تعلیم کے بارے میں حکومت کیا سوچتی ہے اس پر ہمارے خیالات سے ملتا جلتا کالم جاوید چوہدری نے کل کے ایکسپریس میں  لکھا ہے۔ اس کا کچھ حصہ ہم یہاں نقل کررہے ہیں۔ آپ پڑھ کر اندازہ لگایے کہ ہماری حکومت تعلیم کے معاملے میں کتنی سنجیدہ ہے۔ اس سے قبل ہم نے جب یونیورسٹیوں میں جنرلوں کے وائس چانسلر بننے کی مخالفت کی تو بہت سے پڑھے لکھوں نے کہا کہ جنرل ہی یونیورسٹی کے ماحول کو ٹھیک رکھ سکتے ہیں۔ لیکن وہ یہ نہیں سمجھتے کہ وائس چانسلر ہی یونیورسٹی کا تھنک ٹینک ہوتا ہے صرف منتظم نہیں اور وہ اپنے طالبعلموں کیلیے ایک نرم گوشہ بھی رکھتا ہے جس کا بعض اوقات کچھ بدمعاش طلبا غلط فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مگر یہ بات سب مانیں گے کہ پڑھا لکھا وائس چانسلر منتظم سے سو درجے بہتر ہوتا کیونکہ اسی نے تعلیمی معیار کو آگے بڑھانا ہوتاہے۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ یونیورسٹی میں نظم و نسق چلانے کیلیے ایک آسامی پیدا کی جائے جس پر کسی جنرل کو لگا دیا جائے جس طرح پرائیویٹ ہائی سکولوں میں کسی ریٹائرڈ میجر وغیرہ کو پی ٹی ماسٹر بھرتی کرلیا جاتا تھا اور وہی سکول میں نظم و نسق کا بھی ذمہ دار بن جاتا تھا۔

آئیں اب جاوید چوہدری کے جاندار کالم کے خاص حصے پر نظر ڈالیں۔

“چند برس پہلے دہلی میں سارک مماالک کی بڑی یونیورسٹیوں کی ایک کانفرنس تھی، کانفرنس میں یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز شریک تھے، تقریب کے آغاز میں شرکاء نے اپنا تعارف شروع کیا، بھارت کی ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے بتایا میں معاشیات کا پروفیسر ہوں، میں دنیا کی فلاں فلاں یونیورسٹی میں اتنا عرصہ پڑھاتا رہا اور میں نے فلاں سال نوبل انعام حاصل کیا تھا، ڈھاکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے تعارف کرایا، میں نے آکسفورڈ سے پی ایچ ڈی کی تھی، میں کولمبیا یونیورسٹی میں بیس سال پڑھاتا رہا، میں تین مرتبہ نوبل انعام کیلیے نامزد ہو چکا ہوں اور ہارورڈ یونیورسٹی میں  میرے فلاں تھیسس پر ریسرچ ہورہی ہے، کولمبو یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے تعارف کرایا، میں ہارورڈ یونیورسٹی کے فلاں ڈیپارٹمنٹ میں بارہ سال ریسرچ کرتا رہا، ہمارے ڈیپارٹمنٹ میں آٹھ نوبل انعام یافتہ سائنس دان تھے اور ہم نے فلاں فلاں دواء تیار کی تھی، اسی طرح ہھوٹان، مالدیپ اور برما کی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں نے بھی اپنا اپنا تعارف کرایا، آخر میں پاکستان کے ایک وائس چانسلر کی باری آئی، ہمارے بزرگ وائس چانسلر نے مائیک میں پھونک ماری اور بھاری آواز میں بولے ” میں پانچ برس پہلے آرمی سے ریٹائر ہوا ہوں، میں لیفٹیننٹ جنرل تھا اور میں نے اپنے پروفیشنل کیریئر میں دنیا کے 14 بڑے عسکری اداروں سے 18 کورس کئے تھے اور مجھے جرات، بہادری اور جنگی منصوبہ بندی کے 9 بڑے تمغے مل چکے ہیں” ہمارے وائس چانسلر کے اس انکشاف نے پورے ہال میں سراسیمگی پھیلا دی اور تمام وائس چانسلر انہیں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھکنے لگے، ہمارے یہ وائس چانسلر اس کانفرنس کے چند ماہ بعد پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے گورنر بنا دئے گئے تھے۔

مجھے یہ واقعہ گورنر پنجاب و سابق وائس چانسلر کے ایک سٹاف آفیسر نے سنایا تھا، یہ سٹاف آفیسر اس وقت موقع واردات پر موجود تھے————–ہمارے وزیر تعلیم ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ہیں جنہوں نے کبھی کسی یونیورسٹی میں داخلہ لیا، وہ کسی بڑے تعلیمی ادارے کے ہاسٹل میں رہے اور نہ ہی انہیں کسی علمی اور تحقیقی ماحول میں رہنے کا اتفاق ہوا———-سندھ میں اسوقت آٹھ یونیورسٹیاں ہیں، ان میں سے سات یونیورسٹيوں کے وائس چانسلر سابق بیوروکریٹس ہیں، بلوچستان کی 5 یونیورسٹیوں میں 3 کے وائس چانسلر ریٹائرڈ جرنیل ہیں جبکہ دو کی صدارت بیوروکریٹس فرمارہے ہیں، ہمارے بلوچستان کی ایک یونیورسٹی کو پوری دنیا میں یہ انفرادیت حاصل ہے کہ اس کےوائس چانسلر محض میٹرک پاس ہيں اور ان کے دستخطوں سے ہر سال لوگوں کو پی ایچ ڈی کی ڈگریاں جاری ہوتی ہیں، پنجاب کی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر بھی پروفیسر نہیں ہیں جبکہ پاکستان میں اس وقت برصغیر کی دوقدیم ترین یونیورسٹیاں موجود ہیں اور ہماری خوش قسمتی ملاحظہ کیجئے ان دونوں یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر ریٹائرڈ فوجی افسر ہیں چنانچہ آپ ان وائس چانسلروں سے پاکستان کی تعلیمی کارکردگی کا اندازہ لگا لیجئے۔———–”

ہمارے آنے والی سول حکومت سے یہی استدعا ہوگی کہ خدارا یونیوسٹیوں سے ان ریٹائرڈ جنرلوں کو پھر ریٹائر کرکے گھر بھیجیے گا اور ان کی جگہ پر قابل اور سینئر پروفیسرز کو وائس چانسلر تعینات کیجئے گا۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کہا ان جنرلوں کو یونیورسٹیوں کا تھانیدار لگایا جاسکتا ہے جو صرف ماحول کو ٹھیک رکھیں۔