شکاگو امریکہ سے مزدوروں کے حقوق کی تحریک یکم مئی کو شروع ہوئی اور بعد میں بین الاقوامی تحریک کی شکل اختیار کر گئی۔ پاکستان میں یوم مئی کو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے دور میں شایان شان منایا گیا کیونکہ یہ بھٹو ہی تھے جنہوں نے پاکستان میں مزدوروں اور طلبا کے حقوق کیلیے آواز اٹھائی اور انہیں یونینز بنانے کی اجازت دی۔ ان یونینز نے 1984 تک ملک کی ترقی میں فعال کردار ادا کیا مگر پھر جنرل ضیا نے انہیں اپنی ڈکٹیٹرشپ کیلیے خطرہ سمجھ کر معطل کردیا۔ اس کے بعد اب موجودہ حکومت نے ان کو بحال کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس عوامی حکومت کے دور میں مزدووروں کے حالات کتنے بدلتے ہیں۔

اس وقت تو پاکستان میں مزدور کا استحصال بے تحاشا ہو رہا ہے۔ مزدور یونینز نہ ہونے کی وجہ سے مزدوروں کی آواز دبی ہوئی ہے اور ان کے حقوق کیلیے کوئی پلیٹ فارم نہیں ہے۔ چاہے سندھ کے ہاری ہوں یا پنجاب کے مزارعے سب ظلم کا شکار ہیں۔ حکمرانوں اور میڈیا کو صرف اپنے پیٹ کی پڑی ہوئی ہے ابھی تک کسی نے مزدوروں کے حالات بدلنے کی بات نہیں کی۔ مہنگائی نے مزدوروں کا جینا دو بھر کردیا ہے۔ جتنا فرق آمدنی اور اخراجات میں اب بڑھ گیا ہے اس سے پہلے کبھی نہیں تھا۔ مہنگائی کا یہ جن صرف اور صرف مخلص حکومت کے قابو آسکے گا اور مخلص حکومت کا پاکستان میں قیام ابھی بہت مشکل ہے۔

مشرق وسطیٰ میں بھی مزدوروں کی حالت بہت خراب ہے۔ عربی مالک ان کے پاسپورٹ اپنے پاس رکھ لیتے ہیں اور کئی کئی ماہ انہیں تنخواہ نہیں دیتے۔ مشرق وسطیٰ میں چونکہ بادشاہت ہے اسلیے وہاں پر مزدوروں کے حقوق کی بات کرنا اور یونین بنانا ناممکن ہے۔ اس طرف نہ تو کبھی دنیا کی بڑی بڑی جمہوریتوں نے دھیان دیا ہے اور نہ ہی اقوام متحدہ نے کوشش کی ہے کہ وہ بادشاہوں سے مزدوروں کو حقوق دلوا سکے۔

مزدوروں کو اگر آسانیاں ہیں تو شمالی امریکہ اور یورپ میں۔ جہاں ان کی یونینز بھی ہیں اور انہیں معاوضہ بھی اچھا اور وقت پر ملتا ہے۔ نبی پاک کی حدیث ” مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری ادا کردو” پر عمل ٹھیک طرح سے یورپ میں ہی ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں تو مسلمان مزدور سے کام لیتے ہیں اور پھر مزدوری کیلیے اسے کئی کئی چکر لگواتے ہیں۔ پاکستان میں سب سے پسا ہوا مزدوروں کا طبقہ بھٹوں پر کام کرنے والوں کا ہے۔ جنہیں اس جدید دور میں بھی غلام بنا کے رکھا جاتا ہے اور ان کا پورا کا پورا خاندان منڈي میں بکتا اور خریدا جاتا ہے۔ وہ لوگ اپنی عورتوں اور معصوم بچوں کیساتھ بھٹوں پر کام کرتے ہیں مگر پھر بھی ان کی حالت مرنے تک ویسی کی ویسی ہی رہتی ہے۔

پتہ نہیں مزدوروں کا یہ استحصال کب بند ہو گا اور کب اسلامی اصولوں کے مطابق مالک اور مزدور ایک مسند پر بیٹھیں گے۔ کب تک مزدوروں کو ان کے پیشے سے منسلک کرکے گالیاں دی جاتی رہیں گی۔ کب تک ان کے حقوق ان کی بے بسی کی وجہ سے غصب کئے جاتے رہیں گے۔