بیس سال قبل کا زمانہ ہے ایک بیس سالہ جوان ریڑھی پر سبزی سجائے ہماری گلیوں میں”سبزی لے لو” کی آواز لگایا کرتا تھا۔ اس کا والد بھیڑ بکریاں چراتا اور ماں چرکھا کاتا کرتی تھی۔ وہ لوگ اس وقت چار مرلے کے مکان میں کرائے پر رہا کرتے تھے۔

اس کی آواز سن کر اگر کوئی باہر نہ نکلتا تو وہ سب کے دروازے کھٹکھٹانے شروع کردیتا اور اگر کوئی عورت کہتی کہ آج اس کے پاس پیسے نہیں ہیں تو وہ سبزی اس کی جھولی میں ڈال کر کہتا ماسی روپوں کی فقر نہ کرو وہ پھر لے لوں گا۔ اگر اس کی سزی نہ بکتی اور اس کے خراب ہونے کا خطرہ ہوتا تو وہ سبزی اپنے گاہکوں کو مفت دے دیا کرتا۔ وہ پاس سے گزرنے والے ہر عورت اور مرد کو گاجر یا مولی کا ٹکڑا دے کر کہتا کہ چکھ کر بتاؤ میٹھا ہے کہ نہیں۔ وہی عورت یا مرد بعد میں اس کے گاہک بن کر اس سے سبزی خرید لیتے۔  اس کی سیلز مینی کی یہ خوبی ہمیں بہت پسند آئی لیکن اس خوبی میں کتنی طاقت ہے اس کا اندازہ ہمیں تب ہوا جب پچھلے سال ہم اس کے  ڈیڑھ کروڑ روپے کے گھر گئے جہاں دنیا جہان کی چیزیں پڑی تھیں۔

رفیق مہاجر انتہائی دبلا پتلا اور کالے رنگ کا بھدا سا لڑکا تھا۔ وہ غربت کی وجہ سے پرائمری سے آگے تعلیم حاصل نہ کر سکا۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے اس نے سبزی ریڑھی کیساتھ ساتھ ہر سال قربانی کے بکرے منڈیوں سے لاکر بیچنے شروع کر دیے۔ اسے یہ کاروبار پسند آیا اور اس نے اسے اپنا لیا۔ ابھی اس کاروبار کو شروع کیے اسے تین چار سال ہوئے تھے کہ اس نے اپنی بجت سے ایک رہائشی پلاٹ خرید لیا۔ یہ پلاٹ اس نے اگلے سال دوگنے منافع پر بیچ دیا۔ اس سودے سے اس کی ہمت بڑھی اور اس نے پراپرٹی کا کاروبار شروع کردیا۔ پھر کیا تھا اس کی چرب زبانی اور گاہک کی خدمت کی عادت نے اس کے کاروبار میں ایسی برکت ڈالی وہ دنوں میں ہی کروڑوں میں کھیلنے لگا۔

ابھی اس کا پراپرٹی کا کاروبار ابتدائی مراحل میں ہی تھا کہ اس نے کونسلر کا انتخاب لڑا اور پھر اپنی زبان دانی کی وجہ سے انتخاب جیت کر یونین کونسل میں جا بیٹھا۔ لوگ اس کی پھرتیوں کو دیکھ دیکھ کر حیران ہوتے اور انہیں یقین ہی نہ آتا کہ ایک غریب سا لڑکا دنوں میں ان کی آنکھوں کے سامنے ترقی کرتے کرتے انہی کا کونسلر بن گیا۔

اس کے بعد رفیق مہاجر نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور آجکل وہ رفیق ٹھیکیدار کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ ابھی پچھلے ہفتے اس نے وفاقی وزیر قمر زماں کائرہ کے خاندان کی وزارتوں کی خوشی میں ان کے پورے خاندان کیساتھ ساتھ محلے والوں کی دعوت کی اور لوگ دعوت میں بیشمار کھانے دیکھ کر عش عش کر اٹھے۔

اس کی پہلی بیوی جونہی فوت ہوئی وہ کہیں سے خوبصورت لڑکی بیاہ لایا۔ اس لڑکی کسیاتھ وہ ایسے ہی لگتا ہے جیسے حور کیساتھ لنگور چل رہا ہو۔

اب وہ اونچے لوگوں میں بیٹھنے لگا ہے اور امید ہے اس کی زبان اسے اب بڑے بڑے کاروبار دلائے گی۔ اب وہ انہی سیاستدانوں کی مدد سے اپنی دولت میں اضافہ کرتا چلا جائے گا۔

رفیق مہاجر کی اس ترقی سے پہلے ہمارا سو فیصد خیال تھا کہ پہلے لاکھ کے بغیر ترقی کرنا ناممکن ہے مگر جب سے رفیق ٹھیکیدار نے زیرو سے ترقی کرتے کرتے کروڑوں جمع کر لیے ہیں ہم اپنا خیال بدلنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اب ہم سمجھتے ہیں کہ اگر آدمی چاہے تو وہ مٹی کو بھی سونا بنا سکتا ہے اور اگر آدمی میں قابلیت نہ ہو تو سونا بھی مٹی بن جاتا ہے۔ ترقی کیلیے پہلے لاکھ یا کروڑ کا ہونا اب ہماری نظر میں ضروری نہیں رہا۔