ہم تو اکثر اپنے بھائِی بہنوں سے کہا کرتے ہیں سب سے جھگڑو، آپس میں لڑو مرو، مگر ماں باپ کیساتھ کبھِی گستاخی نہ کرو۔ کیونکہ ماں باپ کی بدعا سے بچنا چاہیے، اول تو وہ بدعا دیتے نہیں اور جب بدعا دیتے ہیں تو ان کی سنی جاتی ہے۔
حضرت موسی طور پر خدا سے ملنے جایا کرتے تھے۔ جب حضرت موسی کی والدہ فوت ہوئِیں تو خدا نے ان سے کہا “موسی آج سوچ کر کوہ طور پر آنا کیونکہ تمہارے پیچھے اب تجھے دعا دینے والا کوئی نہیں رہا”۔
چند سال قبل ہمارے محلے کے دو بھائی آپس میں لڑ پڑے۔ جب بڑے نے چھوٹے کیساتھ زیادتی کی تو ماں نے بڑے سے کہا “تم نے میرا دل دکھایا ہے”۔ بڑے نے ماں کی نقل اتار کر کہا “ماں تو چھوٹے سے زیادہ محبت کرتی ہے اسی لیے منہ بگاڑ کر تو نے کہا تھا کہ میں نے تیرا دل دکھایا ہے”۔ یہ بات کرتے ہوئے بڑے بیٹے نے ماں کی طرح ہوبہو منہ بنایا یعنی ماں کی پوری نقل کی۔ کرنا خدا کا یہ ہوا اسی رات ہی بڑے بیٹے کو لقوی ہو گیا اور صبح ماں سے کہنے لگا “ماں یہ تمہاری بدعا کا ہی نتیجہ ہے”۔ ماں بولی “یاد رکھو مائیں بدعا کبھِی نہیں دیتیں مگر ان کا دل ضرور دکھتا ہے”۔ اب بھِی اس شخص کا منہ مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہوا۔
ہماری ایک عزیزہ کو اپنی ساس کی کھانسی سے سخت چڑ ہو گئی اور وہ ہر وقت ساس کے کھانسنے پر اسے کوستی رہتی۔ ایک دن تو یہاں تک کہ دیا کہ ساس کی کھانسی کی وجہ سے اسے نیند نہیں آتی اور ایک دن اسے گھر سے ہی نکال دیا۔ تب سے ساس اپنی بیٹیوں کے پاس رہنے لگی۔ کرنا خدا کا کیا ہوا دو سال بعد ہی بہو کو ہو بہو ویسی ہی کھانسی لگ گئ۔ اب اسے اپنی پرانی زیادتی یاد نہیں رہی اور سب سے کہتی پھرتی ہے “اس نے تو کسی سے کبھِی کراہت نہیں کی تھی پتہ نہیں اسے کھانسی کیسے لگ گئِ”۔ ڈاکٹر نے اس کی کھانسی کو گلے کی خراش کہ کر لاعلاج قرار دے دیا ہے اور دنیا جہان کے ڈاکٹروں اور حکیموں کا علاج بھِی اس پر اثر نہیں کر رہا۔
No user commented in " ماں کی بدعا "
Follow-up comment rss or Leave a TrackbackLeave A Reply