خبروں اور حالات و واقعات سے تو یہ لگتا ہے کہ صحافی سلیم شہزاد خفیہ ایجنسیوں کی متشددانہ تفتیش کے دوران ہلاک ہوئے اور پھر بعد میں قتل چھپانے کیلیے ان کی نعش نہر میں بہا دی گئی۔ بی بی سی کی خبروں کیمطابق تو ان کے ساتھیوں کی باتوں سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ نیوی پر ہونے والے دہشت گردی کے حملے پر ان کی چھپنے والی رپورٹ ان کے اغوا اور پھر قتل کا سبب بنی۔ ان کے اغوا سے ایک دن قبل انہوں نے کہا تھا کہ اگر رپورٹ کے جواب میں خاموشی ہو تو پھر اٹھا لیا جاتا ہے۔ ان کے دوستوں کے مطابق ان کے فون سے آنے والی کال میں بھی کہا گیا تھا کہ سلیم صاحب خیریت سے ہیں اور چند روز میں گھر پہنچ جائیں گے۔
اگر یہ کار چھیننے کی واردات ہوتی تو پھر کار اس طرح سڑک کے کنارے سے نہ ملتی۔ اگر ان کا قتل ذاتی دشمنی کی وجہ ہوتا تو پھر وہ اس طرح کے تشدد کا نشانہ نہ بنتے بلکہ گولی یا تیز دھار آلے سے قتل کر دیے جاتے۔ ان کے جسم پر چوٹوں کے نشانات گواہی دیتے ہیں کہ ان پر تفتیش کے دوران تشدد کیا گیا اور وہ اس تشدد کو برداشت نہ کر سکے۔
اگر تو صحافی سلیم شہزاد کے قتل میں کوئی گرفتاری نہ ہوئی اور اس کیس کا نہ سپریم کورٹ نے سوموٹو ایکشن لیا اور نہ آزادنہ انکوائری ہوئی تو پھر یہ شبہ پکا ہو جائے گا کہ سلیم شہزاد خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ خدا ان کے گناہ معاف کرے، انہیں جنت میں جگہ دے اور ان کے قاتلوں کو اسی انجام سے دوچار کرے۔
11 users commented in " صحافی سلیم شہزاد کا قتل "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackپر اسرار قتل سارے فوج کے کھاتے میں جاتے هیں
قائد اعظم کا پراسرار قتل ، ملٹری اتاشی کا ایمو،ینس کا انتظام
لیاقت علی خان کا قتل
اور بھی بہت سے قتل
ھھ
پتہ نہیں کیوں ہم ہر بات کو ہیر پھیر کر پاکستان کے دفاعی شعبوں پہ ڈال کر اپنے سارے فرائض سے بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔ اس سے پہلے آپ افواج پاکستان کو بہ حیثیت مجموعی غدار کہہ چکے ہیں۔ جب آپ جیسے افراد جنہیں ایک آزاد ملک میں آزاد ملک میں آزاد میڈیا اور مختلف ذرائع سے ملنے والی معلومات کے بعد ایک آزاد رائے قائم کرنے میں اسقدر مسئلہ ہے تو پاکستان کے اندر رہنے والے ایک عام آدمی کو پاکستان کے بے ہودہ میڈیا اور پاکستان پہ اپنی خصوصی نطر کرم رکھنے والے غیر ملکی اداروں کے اردو ایڈیشنز جن کا مقصد ہی پاکستانی شہری کو اپنے صحفات پہ خسوصی ایجنڈے کے تحت جن پہ اکثر بیشتر خبر دینے اور تجزئیہ نگار کا نام تک نہیں ہوتا کے ذریعے پاکستانی فارووڈ مائنڈ کو مایوسی اور ناکام کا پیغام دینا ہے۔ تو ایسے میں آپ اور دیگر بہت سے لوگ بغیر کسی مستند حوالہ جات کے زمانے کے چلن کے مطابق چند لائینیں اور کچھ جملو ں میں آدھے صحفے کے اعلان میں فوج کو غدار اور سلیم شہزاد کا قاتل آئی ایس کو قرار دے کر ہم بھارت امریکہ اور پاکستان کے دیگر دشمن ممالک کا کام آسان کر دیتے ہیں۔ ایک آراد کرسی پہ محفوظ بیٹھ کر کمپیوٹر سے آدھ صحفہ لکھ کر چاند تارے توڑ لانے کا عزم اور دنیا کی انتہائی تربیت یافتہ اور مالی اور تکنیکی وسائل سے مالامال خفیہ ایجینسیوں اور پاکستان کے دشمن ممالک کے مفادات پاکستان کی سالمیت کے خلاف ایک ہونے کی وجہ سے اکھٹے ہوگئے ہیں۔
آپ سمیتت شاید بہت لوگوں کو علم نہیں ہوگا۔ کہ اس وقت پاکستان کے اندر بے غیرت مشرف کی وجہ اور اجازت سے سی آئی اے۔ ایم فائیو۔ را۔ موساد۔ خاد۔ خلق اور پتہ نہیں کون کون ایجینسیوں کے ذہین ترین اور انتائی تربیت یافتہ لوگ پاکستان میں پاکستان کی جڑیں کاٹنے کا کام کر رہے ہیں۔ اور ہمارے سیاسیتدان جو دوسری یا تیسری کے بچوں کی طرح ہر آئے دن امریکن ایمبیسڈر کو شکائیتیں۔ وضاحتیں اور درخواستیں لگاتے نظر آتے ہیں۔ وہ بھی ان ایجنسیوں کے ایک قسم کے مراعات یافتہ اور تنخواہ دار ایجینٹوں کی طرح اپنی ذاتی اور گھٹیا مفادات کی خاطر پاکستان کے مفادات کو پس پشت ڈال کر پاکستان کی سالمیت کی خاطر جان کی بازی لگانے والوں کو اپنے :۔” کھل کھیلنے “۔: میں پاکستان کے اچھے یا برے لیکن پاکستان کے دفاعی اداروں کو دیوار کے ساتھ لگا دینا چاہتے اور اگر یوں ہوتا ہے تو پاکستانی قوم جدید تاریخ کی شاید پہلی قوم ہوگی جو اپنے وجود کو محض ایک دوسرے کا گریبان پکڑنے کی وجہ سے منتشر اور مفقود ہوجائے گی۔ اور پاکستان کے دشمن یہ بات بخوبی جانتے ہیں۔ اور ہر وہ صحافی ۔ ادارہ ، وکیل۔ قادیانی، یا بکاؤ مال جو محض اپنے ذاتی معاملات کی وجہ سے پاکستان سے بغض رکھتا ہے وہ پاکستان کے خلاف ان طاقتوں کے پے رول لسٹ پہ ہے۔
پاکستان میں تو یہ عالم ہے کہ جسے یہ پاکستان یونٹوں کی فارمیشن تک کے بارے علم نہیں وہ بھی قسم قسم کے ٹی وی اینکرز اور غیر معروف صحافی ہر قسم کے قومی مفاد کو پس پشت دالتے ہوئے محض نمبر بنانے کی بے وقوفانہ دوڑ میں شامل اور کچھ اپنے آقاؤں کو خوش رکھنے کی خاطر۔ پاکستان دفاعی اداروں اور حال میں کراچی کے نیول بیس پہ اپنی جان لڑا کر رات کے اندھیرے میں حملہ آور وہنے والے انتہائی تربیت یافتہ دہشت گرد کمانڈوز کو انکے مذموم مقاصد کی تکمیل میں جان دینے والے شہداء تک پہ انگلیاں اٹھانے اور الزام تراشی سے باز نہیں آئے۔ لعنت ہے ایسے لوگوں پہ جنہوں نے انکی خاطر جان سے گزر جانے والے شہدا تک کو الزام تراشیوں سے نہیں بخشا۔ جبکہ انکی اپنی حب الوطنی اور اپنے اخبارات و ٹی وی چینلز سے وفاداری کا یہ عالم ہے کہ محض انہیں کچھ زیادہ معاوضے کا لالچ دے کر کبھی خریدا جاسکتا ہے ۔ جس کے لئیے وہ اپنے پچھلے ٹی وی چینل کے ساتھ کسی بھی معائدے کو روند کر آگے بڑھ جاتے ہیں اور روپے کی خاطر ایسی اخلاقیات کے مالک لوگوں سے قومی مفاد کی کیا توقع رکھی جاسکتی ہے۔ اور ان کی یاوہ گوئیاں دیکھ کر انٹر نیٹ کی موجودگی کا فائدہ اٹھا کر ہر تیسرا فرد ان سے بھی بڑھ کر دور کی کوڑی چھاپ رہا ہے۔ اسکی عمدہ مثال ویب سیارہ کے کچھ بلاگرز کے بغیر کسی ثبوت اور دلیل کے لزام تراشیاں دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے۔ کیونکہ الزام تراشی کرنے والے پہ اخلاقی اور قانونی طور پہ یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے الزام کی صحت میں کوئی شہادت ، ثبوت، دلیل، یا واقعہ وغیرہ پیش کرے۔ مگر نہیں صاحب جسے بڑی مشکل سے اردو کے درست ہجے تک نہیں لکھنے آتے وہ بھی اپنے آپ کو دانشوروں کے ذمرے میں شمار کرتا ہے۔ بے شک کرتا رہے واللہ ہمیں اس پہ بھی اعتراض نہیں۔ مگر وہ اپنی داشوری کے اظہار کے لئیے آغاز اسلام ،نظریہ پاکستان ۔ پاکستان۔ افواج پاکستان۔ پاکستانی خفیہ دفاعی ادارے۔ بھارت ماتا کے ترانے و نغمے ۔ امریکہ درآمد مادر پدر آزاد روشن خیالی۔ سے کرتا ہے۔ جیسے پاکستان اور پاکستانی قوم کے مزھبی جزبات کا کوئی نانی نانا ہی نہ ہوا اور غریب کی جورو کی طرح جسکا دل چاہتا ہے اسے سے ٹھٹھہ مخول کرنے انٹر نیٹ پہ چڑھائی کرتے ہوئے اپنی بے وقوفی یعنی پاکستان کے رواج کے مطابق اپنی دانشوری کا اعلان کر دیتا ہے۔ اگر فریق مخالف جن پہ یہ اپنی داشوری کی بنیاد کا آغاز کرتے ہیں ۔ ایسے تمام نام نہاد دانشوروں میں سے صرف چند ایک کو دو لتر صبح دو شام لگا دیا کریں تو یقین مانیں نناوے فیصد دانشور مصلے پہ نظر آئیں اور ہر کسی کو انتائی عزت کی نگاہ سے دیکھیں کیونکہ شریف آدمی کبھی اسطرح کی حرکات نہیں کرتا یہ صرف شر سے لبریز اور شریر لوگوں کا کام ہوتا ہے۔ اور شریر لوگوں کو شر سے باز رکھنے کے ضابطے دنیا کی ہر قوم نے مقرر کر رکھے ہیں۔
پاکستان میں دن میں سینکروں قتل ہوتے ہیں۔ یہ ناممکن ہے کہ ہر قتل میں آئی ایس آئی ملوچ ہو۔ کیا یہ ممکن نہیں ریمینڈ ڈیوس جیسے لوگوں کو ایسے افراد کا پتہ ہو جنہیں ماضی میں واقعتا حکومتی اداروں کی طرف سے قومی سلامتی کے بارے بریف کیا گیا ہو کہ کس طرح ان کی بے تکی دانشوریاں جو درحقیقت ان میں اکثر پاکستانی صحافیوں کی کسی نہ کسی طرف سے دانہ ملنے کی وجہ سے اپنے اپنے آقاؤں اور بتوں سے وفاداری کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اور ایسے افارد کو بریف اور ڈی بریف کرنا اداروں کی ذمہ داری ہوتی ہے جسے مکر فریب یا جان کے خوف یا اپنے اندیدہ آقاؤں کے اشارے پہ جان کی دھمکی ظاہر کرتے ہوئے بعد میں ریمنڈ ڈیوس جیسے لوگ انھیں پار لگا کر اپنے باقی میڈیا ایجینٹوں کو اشارہ کر دیں کہ شور مچانا شروع کردو۔
پاکستان سخت مشکلات سے دوچار آگے بڑھ رہا ہے۔ امریکہ اپنے اخراجات کی وجہ سے اور لیبیا جیسے نسبتا کم خرچ اور بہت ہی بالا ترین تیل کی وجہ سے اس طرف توجہ کر رہا ہے۔ ویسے بھی امریکہ کی جنگ جوئی تاریخ بتاتی ہے کہ امریکہ کسی بھی قوم پہ اپنا قبضہ دیرپا قائم نہیں کرسکا۔ اور وہ آج نہیں تو کل یعنی ایک دو سالوں سے افغانستان سے اسے نکلتے بنے گی۔ مگر وہ جانے سے پہلے بھارت کو علاقے کی بالا طاقت اور افغانستان کو پاکستان کے شمال میں ایک بڑے حریف اور کرزئی جیسے کینہ پرور شخص کو افغانستان کا حاکم چھوڑ کر جانا جاتا ہے اور بھارت اور خود امریکہ پاکستان پہ اسی صورت میں بالا دستی قائم کر سکتے ہیں جبکہ پاکستان کے پاس جوہری ہتیار انھیں ھدف تک پہنچانے کے لئیے مزائیل وغیرہ کو کسی طرح ناقابل استعمال بنا دینا چاہتا ہے ۔ یا ممکن ہو تو پاکستان کی جوہری تنصیبات کو اپنے قبضے میں لے لینا چاہتا ہے۔یہ تبھی ممکن ہے جب پاکستان اندرونی طور پہ خلفشار کا شکار ہو کر کمزور ہوچکا ہوگا۔
ہمیں آنکھیں کھولنی چاہئیے اور قطار اندر قطار اپنی صحفوں میں اتحاد پیدا کرنا چاہئیے تانکہ اقوام عالم اور خاصکر پاکستان کے دشمنوں کو یہ پیغام جائے کہ کہ پاکستانی قوم اپنے مشکل وقت میں متحد ہے اور پاکستان کے وجود پہ کسی بھی بری نظر ڈالنے والے کے دانت کھٹے کرنے کا عزم رکھتی ہے۔
ماضی میں پاکستانی حساس ادارے تحقیقاتی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو مبینہ طور پر اغوا کر کے تشدد کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال ملک کے سب سے بڑے صحافتی ادارے سے وابستہ ایک صحافی عمر چیمہ کا اغوا ہے۔ سلیم شہزاد کے قتل پر ملکی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا موجودہ حالات میں آئی ایس آئی اس طرح کا اقدام کرنے کی پوزیشن میں ہے؟
موجودہ پاکستانی حکومت کے قیام کے بعد سے امریکہ اور آئی ایس آئی کے تعلقات تناؤ کا شکار چلے آ رہے ہیں۔ خصوصاً ایبٹ آباد میں القاعدہ کے سربراہ اُسامہ بن لادن کی ایک امریکی آپریشن کے دوران ہلاکت سے پاکستان کے اندر اور باہر آئی ایس آئی کو تنقید کا نشانہ بن رہی ہے۔ ایسے میں دہشت گردوں نے کراچی میں واقع پاک بحریہ کے اسٹیشن پی این ایس مہران پر حملہ کیا، جس کے حوالے سے سلیم شہزاد نے ایک تحقیقاتی رپورٹ لکھی۔ اس میں القاعدہ اور پاکستان کی مسلح افواج کے مبینہ رابطوں کا نہ صرف انکشاف کیا گیا تھا بلکہ یہ بھی بتایا گیا تھا کہ دہشت گردوں اور پاک بحریہ کے درمیان انتہا پسندوں کے لیے ہمدردی رکھنے والے گرفتار فوجیوں کی رہائی کے لیے مذاکرات بھی جاری تھے اور مہران بیس پر حملہ ان مذاکرات کی ناکامی پر کیا گیا۔ اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد سلیم شہزاد کو اغوا کر کے قتل کردیا گیا اور یوں تمام تر الزام آئی ایس آئی کے سر پر آ گیا۔ آئی ایس آئی نے اس الزام کی سختی سے تردید کی ہے۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ آئی ایس آئی کو اس طرح کی وضاحت پیش کرنا پڑی ہے۔
مبصرین کے مطابق سلیم شہزاد کے قتل میں مذہبی انتہا پسند قوتیں بھی ملوث ہو سکتی ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی تیسری قوت اس صورت حال سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہو اور اسی لیے سلیم شہزاد کو ایک ایسے موقع پر قتل کیا گیا ہے کہ تمام تر شکوک آئی ایس آئی اور مذھبی انتہا پسندوں کی طرف جائیں۔
کچھ دیگر مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ سلیم شہزاد کے قاتلوں کی گرفتاری خود حساس اداروں خصوصاً آئی ایس آئی کے لیے بہت ضروری ہے کیونکہ قاتلوں کے گرفتار ہونے تک شبہ حساس اداروں پر ہی کیا جائے گا۔
کلِک ’صحافی کے قتل کو آئی ایس آئی کو بدنام کرنے کے لیے استعمال نہ کریں‘
حمید ہارون نے مقتول صحافی کے قتل کی تحقیقات کرنے والے حکام سے کہا ہے کہ وہ یہ بات تصدیق کے ساتھ ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں کہ مقتول صحافی نے انہیں بتایا تھا کہ گزشتہ پانچ برسوں میں کم از کم تین موقعوں پر آئی ایس آئی کے افسروں کی جانب سے انہیں قتل کی دھمکیاں دی گئی تھیں۔
میں (حمید ہارون) یہ بات ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں اور اس کی تصدیق کرتا ہوں کہ ہیومن رائٹس واچ کے پاکستان کے مانیٹر علی حسن دایان کی جانب سے مقتول صحافی سلیم شہزاد کے قتل کے حوالے سے لگائے گۓ الزمات مکمل طور پر ان تین ای میلز کے ان مندرجات سے مکمل طور مطابقت رکھتے ہیں جو مقتول صحافی کی طرف سے انہیں اور اپنے موجودہ آجر ایشیا ٹائمز آن لائین کے پبلشر کوبھیجی تھیں۔
حمید ہارون
حیمد ہارون نے جو آجکل امریکہ کے دورے پر ہیں بدھ کی شام نیویارک سےجاری کردہ اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ مقتول صحافی سلیم شہزاد کے سابق آجر کی حیثیت سے اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ سلیم شہزاد کی جانب سے ہیومن رائٹس واچ کے پاکستان میں نمائندے علی حسن دایان کو بھیجیی گئي ای میلز میں واضح طور پر ان خدشات کا اظہار کیا تھا کہ ان کی زندگی کو آئی ایس آئی کی طرف سے خطرہ ہے۔
اپنے بیان میں حمید ہارون نے آئی ایس آئی کے بے نام ترجمان کی جانب سے منگل کو جاری ہونے والے پاکستانی سرکاری نیوز ایجنسی کی توسط سے ہیومن رائٹس واچ کے الزمات کو بے بنیاد قرار دیے جانے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ’میں (حمید ہارون) یہ بات ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں اور اس کی تصدیق کرتا ہوں کہ ہیومن رائٹس واچ کے پاکستان کے مانیٹر علی حسن دایان کی جانب سے مقتول صحافی سلیم شہزاد کے قتل کے حوالے سے لگائے گۓ الزمات مکمل طور پر ان تین ای میلز کے ان مندرجات سے مکمل طور مطابقت رکھتے ہیں جو مقتول صحافی کی طرف سے انہیں اور اپنے موجودہ آجر ایشیا ٹائمز آن لائن کے پبلشر کوبھیجی تھیں۔
حمید ہارون نے کہا کہ ہیومن رائٹس واچ کے علی دایان حسن کے پاس بھی ان تین ای میلز میں سے ایک ای میل ہے۔
سلیم شہزاد کی آئی ایس آئی کے عملداروں سے ملاقاتوں کے موقع پر آئي ایس آئی کے میڈیا ونگ کے ڈائریکٹر جنرل ریئر ایڈمرل عدنان نذیر، اور ڈپٹی ڈائریکٹر آئی ایس میڈیا ونگ کموڈور خالد پرویز بھی موجود تھے۔
حمید ہارون کے مطابق سلیم شہزاد کی جانب سے اپنے تین ساتھیوں کو انہیں ملنے والی دھمکیوں کی اطلاعات منتقل کرنے کا مقصد آئی آیس آئی کو بدنام کرنا نہیں بلکہ اس خطرے کو ٹالنا تھا جو سلیم شہزاد اپنی زندگی کو لاحق سمجھتے تھے۔
پاکستان میں اخبارات کی تنظیم اے پی این ایس کے سربراہ نے ہیومن رائٹس کی جانب سے آئی ایس آئی پر مقتول صحافی کے حوالے سے لگائے گئے الزامات کو درست قرار دیا ہے۔
حمید ہارون نے کہا کہ مقتول صحافی سلیم شہزاد کو ملنے والی جس آخری دھمکی کا وہ حوالہ دے رہے ہیں اس کا ذکر انہوں نے یعنی مقتول صحافی نے ان کو بھیجی گئی اس ای میل میں کیا ہے جس کے اوپر انہوں نے ’برائے ریکارڈ ‘ لکھا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ ’اٹھارہ اکتوبر سنہ دو ہزار دس کو صبح گیارہ بجے بھیجی گئی اپنی ای میل میں سلیم شہزاد نے آئی ایس آئی کے اسلام آباد میں واقع ہیڈ کوارٹر میں آئی ایس آئی کے شعبہ میڈیا کے عملداروں کے ساتھ ملاقاتوں کی تفصیل بیان کی تھی۔
سلیم شہزاد کی آئی ایس آئی کے عملداروں سے ملاقاتوں کے موقع پر آئي ایس آئی کے میڈیا ونگ کے ڈائریکٹر جنرل ریئر ایڈمرل عدنان نذیر، اور ڈپٹی ڈائریکٹر آئی ایس میڈیا ونگ کموڈور خالد پرویز بھی موجود تھے۔
http://pakistaniat.com/2011/06/01/saleem-shahzad/
http://dosrarukh.com/2011/06/01/aik-dhikka-aur-do/
بدنام زمانہ ایجنسی کا ایک اور صحافی شکار۔۔
اگر آئی ایس آئی اپنا جو ان کا اصل کام ہے کرتی تو آج ملک کی یہ حالت نہ ہوتی۔ سلیم شہزاد کو اس بات کی سزا دینا کہ انہوں نے کوئی خبر دی کہ بحریہ میں شدت پسند گروپ بن گیا ہے۔ آئی ایس آئی کا کام تھا کہ وہ یہ گروپ نہ بننے دیتی لیکن افسوس کہ سب ایجنسیاں اپنے کام سے ہٹ گئیں ہیں۔
جس پس منظر میں سلیم شہزاد کو قتل کیا گیا ہے، اس کو سامنے رکھتے ہوئے تو اب تبصرہ لکھتے ہوئے بھی کافی چوکنا رہنا پڑتا ہے۔
نیوی بیس پی این ایس پر حملہ اور اس سے قبل نیوی کی بسوں پر ہونے والے حملوں کو اگر دیکھا جائے تو سلیم شہزاد کی رپورٹ کافی وزن رکھتی ہے۔
کيوں بيچاری آئی ايس آئی کے پيچھے پڑے ہوئے ہيں آپ لوگ ! باقی دنيا ميں بھی تو جابرایجینسیوں حکومت کر رہی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
لاحول ولاقوۃ، پتہ نہیںکب تک اس طرح کی بدزبانی سے ہماری پوسٹوں کا حسن خراب ہوتا رہے گا۔ خدا ہی عقل دے تو دے وگرنہ ہم لوگ سدھرنے والے نہیں۔ کتنی دفعہ عرض کیا کہ خدارا ہمارے بلاگ کو اس طرح کی لغوگوئی سے دور رکھیے مگر نہیں۔ ہم تو جو منہ میںآئے گا بولتے جائیں گے چاہے صاحب بلاگ کو کتنا ہی برا لگے۔ بلاگ پر لڑائی ایسے ہی ہے جیسے کسی پڑوسی کے گھر جا کر آپس میں لڑنا۔
کوئی ہے جو اس بدمزگی کا حل بتائے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2011/06/110604_pak_isi_control_zz.shtml
کیاکوئی آئی ایس آئی کو قابو میں لا سکتا ہے؟
سلیم شھزاد کی موت پر امریکا کا تعزیت کرنا کچھ معاملے کو مشکوک کرتا ھے پھلے امریکا نے کتنے صحافیوں کی موت پر تعزیت کی تھی کیا سلیم سھزاد سے اسے کوئ خصوصی لگاو تھااپنے اداروں پر الزام لگانے سے پھلے سوچ لو کے اس سے کس کو زیادہ فائدہ پھنچ رھا ھے امریکا کو ےا پاکستان کو سوچو سوچو سوچو ۔۔۔۔۔۔
Leave A Reply