آصف زرداری نے جب مسلم لیگ نواز کیساتھ جج بحال کرنے کا تازہ وعدہ توڑتے ہوئے کہا “معاہدے کوئی قرآن یا حدیث نہیں ہوتے جن میں تبدیلی نہ کی جا سکے” تو ملک میں ایک بحث چل نکلی۔ کہتے ہیں آخری معاہدے کے وقت جب نواز شریف کسی صورت آصف زرداری پر اعتبار نہیں کر رہے تھے تو آصف زرداری نے قرآن منگوا لیا اور کہا چلیں اس دفعہ قرآن کو ضامن بنا کر معاہدہ کرتے ہیں۔ نواز شریف نے تب آصف زرداری پر پھر اعتبار کرلیا اور دوبارہ تحریری معاہدے پر دونوں نے دستخط کر دیے۔ اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کیلیے ایک کہانی کو دہرانا یہاں ضروری ہو گیا ہے۔

پرانے وقتوں اور موجودہ دور میں بھی لوگ مجرم کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کیلیے قرآن ہاتھوں میں اٹھا کر یہ قسم کھانے کو کہتے آئے ہیں۔ یہی روایت ایک گاؤں کی تھی۔ ایک دن ایک گنوار کو چوری کے جرم میں پکڑ لیا گیا اور اسے کہا کہ اگر وہ قرآن اٹھا کر کہے کہ چوری اس نے نہیں کی تو گاؤں والے مان لیں گے۔ گنوار نے بہت کوشش کی کہ وہ قرآن کو نہ اٹھائے مگر جب گاؤں والا کا اصرار بڑھا تو اس نے کہا کہ لاؤ قرآن، میں اٹھاتا ہوں اور جب اس کے سامنے قرآن لایا گیا تو اس نے کہا “اچھا تو تم اس قرآن کی بات کر رہے تھے، یہ تو میں بیس تیس بھی اٹھا سکتا ہوں، میں سمجھا قرآں بہت بھارا ہو گا جو مجھ سے اٹھایا نہیں جائے گا”۔

پرانے وقتوں میں لوگوں کے دلوں میں اللہ رسول کا خوف ہوتا تھا اور برے سے برا آدمی بھی قرآن پر حلف اٹھاتے ہوئے گھبرایا کرتا تھا۔ اب نیا دور ہے اور اس دور میں اب گنوار سیاستدان قرآن کو ایک کتاب کے سوا کچھ نہیں سمجھتے۔ لیکن یہ وہی قرآن ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگر وعدہ کرو تو اس کو پورا کرو۔ ہم سب جانتے ہیں کہ عہدناموں پر ہی آج کی دنیا کا نظام قائم ہے۔ اقوام متحدہ میں تمام اقوام نے ایک معاہدہ کر رکھا ہے۔ تمام ملکوںنے آپس میں معاہدے کر رکھے ہیں اور اگر یہ معاہدے توڑ دیے جائیں تو دنیا میں انارکی پھیل جائے۔

لیکن ایک بات جو حقیقت ہے وہ یہ کہ معاہدے صرف کمزوروں کو پابند کرنے کیلیے کیے جاتے ہیں اور یہ یکطرفہ ہوتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سپرپاوروں نے انہی معاہدوں کی وجہ سے آج تک کتنے ممالک کو غلام بنا کے رکھا ہوا ہے۔ یہ سپر پاورز جب چاہے اور جس کے کسیاتھ چاہے معاہدہ توڑ دیں انہیں کوئی کچھ نہیں کہتا لیکن غریب اگر معاہدہ توڑ دے تو یہ اس پر چڑھائی کر دیتی ہیں۔

یہی حال ہماری ملکی سیاست کا ہے۔ اگر امریکہ، فوج اور آپ کی پارٹي آپ کیساتھ ہے تو پھر آپ ہر قول و اقرار سے آزاد ہیں اور اسی وجہ سے آصف زرداری صاحب کے نزدیک سیاسی معاہدے قرآن اور حدیث نہیں ہوتے۔

لیکن ایک بات یاد رکھنی چاہیے، وعدہ خلاف غیروں کی پشت پناہی پر حکمراں تو کچھ عرصہ رہ سکتا ہے مگر وہ عوام کے دلوں پر راج نہیں کر سکتا۔ ایک دن جب غیر اپنا دست شفقت کھینچ لیتے ہیں تو پھر صرف تباہی اس کا مقدر ہوتی ہے۔