پاکستان میں لوگ دو طرح کے خیالات رکھتے ہیں۔ ایک طبقے کا خیال ہے کہ پاکستان کے حکمران امریکہ کے زیر اثر ہیں مگر اتنے بھی نہیں کہ وہ باتھ روم بھی ان سے پوچھ کر جائیں۔ دوسرے طبقے کا خیال الٹ ہے اور اس کا کہنا ہے کہ پاکستان کے حکمران سو فیصد امریکہ اور آئی ایم ایف کے غلام ہیں۔ ہمارا بجٹ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے لوگ بناتے ہیں۔ ہمارا یہ یقین ہے کہ ہمارے حکمران اپنی حکمرانی کیلیے اپنی ماں بہن بھی بیچنے سے گریز نہیں کرتے۔
ہماری سوچ کی گواہی موجودہ حکمرانوں کی پالیسیاں ہیں۔
عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت تیس فیصد کم ہوچکی ہے مگر حکومت نے پیٹرول کی قیمت کم نہیں کی۔
گمشدہ افراد کی بازیابی کی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔
آٹے اور گندم کی سمگلنگ روکنے کی ہمت حکمرانوں میں نہیں۔
غیرسنجیدہ صدر پاکستان آصف زرداری عوام کو ریلیف دینے کی بجائے سرکاری خرچ پر نجی دورہ کرنے دبئی اور انگلینڈ چلے گئے ہیں۔
ابھِی تک موجودہ حکومت نے پاکستان کی معاشی حالت سدھارنے کیلیے کوئی انقلابی قدم نہیں اٹھایا۔
آئی ایم ایف کا وفد پاکستان پہنچ چکا ہے جس کی مدد سے عوام کی زندگی مزید عذاب بن جائے گی۔
اگر حکومت واقعی آزاد ہوتی تو اب تک ملک کے معاشی ماہرین کو ایک جگہ اکٹھا کر کے ایک ایسی پالیسی بناتی جس سے عام آدمی کو ریلف ملتا۔ ملک سے جرائم ختم کرنے کی سنجیدہ کوشش کرتی۔ عدالتی نظام میں انقلابی تبدیلیاں لا کر عوام کو سستا انصاف مہیا کرتی۔
چونکہ حکمران خودغرض، محکوم اور بے حس ہیں اسلیے وہ ایم کیو ایم کے الطاف بھائی اور جے یو آئی کے مولانا فضل الرحمان کی طرح ہر چھوٹی موٹی خبر پر بیان تو داغ دیتی ہے مگر کوئی عملی قدم نہیں اٹھاتی۔ الطاف بھائی کا پچھلے آٹھ سال سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ حکومتی پالیسیوں پر تنقید بھِی کرتے رہو اور حکومت کا حصہ بھِی بنے رہو۔ مولانا فضل الرحمان بھی شمالی علاقوں پر حملوں اور خارجہ پالیسی پر تنقید کیے جا رہے ہیں مگر حکومت سے الگ بھِی نہیں ہو رہے۔ اسی طرح ہماری حکومت بھی عوام کی خدمت کی رٹ بھی لگائے ہوئے ہے اور ان کی زندگی بھی اجیرن بنائے ہوئے ہے۔ لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی نے کراچی سمیت تمام ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور حکومت شمالی علاقوں کو دہشت گردوں سے پاک کرنے میں لگی ہوئی ہے۔
2 users commented in " بے بس حکمران "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackاللہ اس ملک پاکستان کی حفاظت کرے حالات بہت خراب ہو گیے یقینا جب کوی اسلام سے منہ موڑ لے اس کا کیا بھروسہ جو اللہ کا نہیں وہ کسی کا نہیں اللہ تعلی سے رمضان میں دعا فرمایں اللہ ہمارے گناہوں کو معاف کر دے ہمارے عمل اچھے ہو جاییں تواللہ ہمارے حالات کو بدل دے گا یقینا مظلوموں کی بدعا ان ظالموں کو کبھی نہ کبھی ضرور ستاییگی ہلاک کتیگی اور حق کا بول بالا ہوگا حدیث پاک میں ہے اعمالکم عمالکم؛ جیسے تمھارے اعمال ویسے تمھارے حاکم
انسان دنیا میں اپنے خالق سے رہنمائ کا محتاج ہے
اور جب ور جیسے حالات ہوں سب سے پہلے اپنے خالق سے رہنمائ لینی ہے ، اللہ کا نبی ہر عمل اور ردعمل کہیئے خالق سے راہنمائ لیتا تھا اور خلفاءراشدین بھی یہی کرتے تھے
آج بھی وہ لوگ جو اللہ پاک کے فرمان کے مطابق خساراپانے والوں میں سے نہیں ہیں وہ ہر عمل کلیئے اپنے خالق سے ر اہنمائ لیتے ہیں
اللہ پاک سے ر رہنمائ لینے کا طریقہ اللہ پاک نے مقرر کر دیا ہے
قرآن اور اسکا رسول
اگر ہم تھوڑا سا وقت نکال کر غور کرلیں تو بات واضع ہوجاتی ہے۔ یسکے بعد اب لازم ہے ہم لوگوں کو بھی بتائیں اور جگائیں
تو جناب حکمران بے بس نہیں ہیں بلکہ بااختیار ہیں جب تک اللہ پاک کی مہلت ہے اور زندگی کی رمق باقی ہے
جب حکمرانوں کو دنیا کا مال ومتاب مل رہا ہے تو انکو کیا ضرورت پڑی کہ آپ کی فکر کرتے پھریں
عماد بھائ کی بات سو فیصد درست ہے بس اللہ پاک سب کو سمجھ دیں آمین
Leave A Reply