کہاوت یہ ہے کہ ایک دفعہ باپ بیٹا چوتھی بار ایک ہی جھونپڑی میں چوری کرنے گئے۔ جب بیٹے نے جھونپڑی میں دیا جلتے دیکھا تو باپ سے بولا “ابا آج میں تمہارے ساتھ اس جھونپڑی میں چوری نہیں کروں گا”۔
باپ نے پوچھا “بیٹا وہ کیوں؟۔
بیٹا بولا “اب تک ہم تین دفعہ اس گھر میں چوری کر چکے ہیں مگر اس کا دیا پھر بھی جل رہا ہے۔ دوسری طرف ہمارے گھر میں اب بھی اندھیرا ہے”۔
حقیقت یہ ہے کہ بیس سال قبل ہم نے ایک دکان اپنے جاننے والے پابند صلوة باریش آدمی کو کرائے پر دی اور اس کا کاروبار چل نکلا۔ اس کی ہمارے ایک دشمن عزیز جو دکان کے سامنے رہتے تھے کیساتھ ان بن ہو گئی۔ ان بن کے کچھ دنوں بعد ہی اس کی دکان کو آگ لگ گئی اور دکان مال سمیت جل کر خاکستر ہو گئی۔ اسے جب باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا کہ آگ ہمارے عزیزوں نے لگائی ہے تو ہمارے والدین سے ان پر مقدمہ کرنے کی اجازت مانگی۔ ہمارے والدین نے اسے منع کیا اور کہا کہ خدا تمہاری مدد کرے گا۔
وہ آدمی شیشے کی مینہ کاری سے تصویریں بناتا تھا اور انہیں فریم کر کے دکانداروں کو بیچتا تھا۔ اس کو خدا نے چھ بیٹے عطا کئے اور سبھی کو اس نے اپنے کاروبار میں اپنے ساتھ ہی لگا لیا۔ دکان کے جلنے کے بعد اس نے عارضی طور پر کاروبار گھر منتقل کیا اور بعد میں دکان بازار میں کرائے پر لے لی۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اس کا کاروبار چل پڑا۔ اس نے اپنے بیٹوں کی ایک ایک کر کے شادیاں کیں، ان کے الگ الگ گھر بنائے۔ یہ اس کی تربیت کا نتیجہ تھا کہ اس کی اولاد میں اتفاق اتنا تھا کہ وہ ابھی تک اپنے باپ کیساتھ اکٹھے کاروبار کر رہے ہیں۔ وہ جب بھی ہماری والدہ کو ملتا ہے ان کو بہت عزت دیتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ سب اس کے والدین کے بعد ہمارے والدین کی دعاؤن کا نتیجہ ہے۔
دوسری طرف ہمارے عزیز جن پر دکان جلانے کا الزام لگا وہ اپنا آدھا گھر بیچ چکے ہیں۔ ان کا ایک بیٹا ان سے ناراض ہو کر الگ ہو چکا ہے۔ ایک بیٹی پینتیس سال کی ہونے کے باوجود کنواری گھر بیٹھی ہوئی ہے۔ دوسرے بیٹے کی تین منگنیاں ٹوٹ چکی ہیں۔ ایک بیٹی کی بیس سالہ شادی اس کیلیے کانٹوں کی سیج بنی ہوئی ہے۔ ان کے حالات جوں کے توں ہیں جیسے بیس سال قبل تھے بلکہ اس سے بھی ابتر ہو چکے ہیں۔
3 users commented in " کہاوت اور حقیقت "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackاللہ سے ڈرتے رہنا چاہیئے ۔ اللہ ہمارے گناہ معاف کرے
جیسا کرنا ویسا بھرنا، انسانوں کے ساتھ کی گئی برائی بڑی بری شکل میں سامنے آتی ہے۔ کافی سارے لوگوں کو حقوق العباد کیا حقوق اللہ تک کی فکر نہیں۔
وہ کسطرح ہے کہ ببول کے درخت پر گلاب کہاں کھلتے ہیں
افضل صاحب!
آپ نے غالباً وقت کی تنگی کی وجہ سے اس کہاوت کو نہائیت اختصار سے بیان کیا ہے۔ اگر اجازت ہو تو پوری کہاوت بیان کروں۔ تاکہ اس کہاوت اور کہاوت میں چھپی نصحیت سے قارئین اکرام بھی محظوظ ہوں۔ کہاوت کچھ یوں ہے کہ ۔
ایک شخص پہلے تنہا ہی چوری چکاری کرتا تھا اور جب اس کا بیٹا بڑا ہوا تو باپ نے اپنے بیٹے کو چوری کرنا سکھانے کے لیے اپنے ساتھ شامل کر لیا۔ اب اتفاق کی بات ہے کہ اس چور شخص نے جس ڈیرے کو لوٹنے ( متوسط کسان پیشہ کاشتکاروں کے ہاں چوری ہونے کو لٹ جانا سمجھا جاتا ہے) کا منصوبہ بنایا۔ وہ اسے پہلے بھی اکیلے میں متعدد بار لُوٹ چکا تھا۔ وہ چور رات کو اپنے بیٹے کے ساتھ اندھیرے میں انتظار کر رہا تھا کہ گھر والے دیا بجھا کر سو جائیں تو اس دفعہ اپنے بیٹے کے ساتھ اس ڈیرے کو لوٹ سکے۔
وقت گزاری کے لیے اس نے اپنے بیٹے کو بتایا کہ یہ جو، جہاں دیا روشن ہے اور جہاں ہم آج چوری کرنے کا ارادہ لے کر آئے ہیں، اس ڈیرے کو میں پہلے تین دفعہ لوٹ چکا ہوں۔ بیٹے کو اللہ سے ہدایت ہوئی۔ اُس نے فوراً کہا ُ ُابا جہاں آپ تین دفعہ اندھیر مچا چکے ہیں اور پھر بھی وہاں دیا روشن ہے ( یعنی گھر آباد، شاد ہے) اور ہم جو سینکڑوں گھر لوٹ چکے ہیں ، ہمارے گھر آج تک چراغ روشن نہیں ہوا ( کیونکہ چور تو رات ہوتے ہی چوری پہ نکل جاتے ہیں) بس ابا اب یہ کام چھوڑ دے کہ یہ چراغ اللہ ہی روشن کرے تو روشنی ہوتی ہے۔ ورنہ زندگی اندھیروں میں ہی گزر جاتی ہے۔ اور آؤ مل کر توبہ کر لیں۔“
Leave A Reply