ذات پات کي تقسيم بہت ساري دوسري تقسيموں ميں ايک ہے جس نے ہم مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کيا ہوا ہے۔ اس ذات پات کي تقسيم کا ہمارے معاشرے پر اتنا گہرا اثر رہا ہے کہ ہم اپنے بچوں کے رشتے بھي ذات برادري سے باہر کرتے ہوۓ ڈرتے ہيں کہ کہيں دوسرا خاندان ہمارے بچوں کو کمي کمين کا تعنہ نہ دے۔
ہمارے روز مرہ کے معمول ميں ايک دوسرے کو اس کي ذات ياد دلانا ايک معمولي بات ہے مگر يہ کوئي نہيں ساچتا کہ چھوٹي ذات کا آدمي اپني اس تذليل پر زندہ زمين ميں دفن ہو جاتا ہے۔ وڈيرے اور چوہدري جب اپنے نوکروں اور مزارعوں کو ان کو کمہار، لوہار، کاسبي، ترکھان، چوہڑا وغيرہ کے نام سے بلاتے ہيں تو ان کو اپني اس محرومي کا شدت سے احساس ہوتا ہے مگر وہ کچھ نہيں کرسکتے کيونکہ يہ ان کي روزي کا سوال ہوتا ہے۔ کبھي کبھي ايسا بھي سننے ميں آتا ہے جب کوئي چھوٹي ذات کا آدمي اپني تزليل پر بڑي ذات والے کو قتل بھي کر ديتا ہے مگر يہ بھدي تقسيم معاشرے ميں اس طرح گھر کر چکي ہے کہ ايک آدھ قتل سے اس کا خاتمہ نہيں ہو پاتا۔
يہ ذات براادري کے بھي عجيب چکر ہيں۔ اگر آپ طاقتور ہيں تو ذات بدل ليں اور کوئي آپ کو نہيں پوچھے گا ليکن اگر آپ غريب اور کمزور ہيں اور جدي پشتي چوہدري ہيں مگر لوگ يہي کہيں گے کہ کوئي کمي کمين ہے اور خود کو چوہدري کہلواتا ہے۔
اگر آپ کو يورپ جانے کا اتفاق ہوا ہو تو آپ نے ديکھا ہوگا کہ وہاں کوئي ذات پات کا رواج نہيں ہے اور نہ ہي وہاں قبيلے ہيں ۔ لوگ وہاں صرف اپنے باپ کے نام سے پہچانے جاتے ہيں۔ يورپ ميں لوگ جتنا بھي گھسا پٹا کام کريں ان کو کوئي طعنہ نہيں دے گا بلکہ ان کو وہي عزت ملے گي جو ايک بڑے آدمي کو ملتي ہے۔ وہاں اگر کوئي چھوٹا بڑا ہے تو اپنے اصولوں اور محنت سے ہے۔ تازہ مثاليں ہمارے سامنے ہيں کہ عام سے کام کرنے والے اپني محنت سے اعلي مقام پر پہنچےاور کبھي کوئي ان کے چھوٹے پن کي وجہ سے ان کي راہ ميں رکاوٹ نہيں بنا۔
يورپ ميں چونکہ مسلمان اکليت ميں ہيں اور دنيا کے سارے ممالک سے آۓ ہوۓ ہيں اسلۓ يہاں ذات پات کا چکر کم ہے۔ لوگ ايک دوسرے سے ملتے ہوۓ ذات بھي نہيں پوچھتے اور نہ ہي حقارت کي نظر سے ديکھتے ہيں۔ اسي روشن خيالي کي وجہ سے يورپ میں مسلمان اپنے بچون کے رشتے کرتے ہوۓ ذات برادري کا ذرا بھي خيال نہيں رکھتے۔ بلکہ ان کي اولاديں جو يہاں پلي بڑھي ہيں ان کو تو ذات برادري کا علم بھي کم ہے اور نہ ہي وہ اس کو کوئي اہميت ديتے ہيں۔ عربي عجمي، پاکستاني، ہندوستاني سبھي ايک دوسرے کے ہاں رشتے کر رہے ہيں۔
پاکستان ميں بھي اس اونچ نيچ سے جان چھڑائي جاسکتي ہے اگر ہماري حکومت مخلص ہو تو۔ حکومت کو چاہۓ کہ وہ ايسے قوانين بناۓ جن سے ايک تو ساري\ے درخواست فارموں سے ذات کا خانہ نکال ديا جاۓ۔ لوگوں کو ان کے نام کے ساتھ ان کي ذات استعمال کرنے سے منع کرديا جاۓ اور ان لوگوں کے سرکاري کام نہ کۓ جائيں جن کے نام کے ساتھ ان کي ساتھ کا دم چھلا لگا ہو۔ لوگوں کو صرف اور صرف ان کے باپ کا نام استعمال کرنے کي اجازت دي جاۓ اور وہ بھي ذات برادري والے نام چھوڑ کر۔ اگر حکومت اس ناسور کا مسلمان معاشرے سے خاتمہ کرسکے تو يہ چھوٹي ذات والے لوگوں پر احسان بھي ہوگا اور اتحاد کي طرف ايک قدم بھي۔ مگر يہ کام حکومت کبھي نہيں کرے گي کيونکہ اس سے مسلمانوں ميں تفريق کا کم از کم ايک راستہ بند ہوگا جو يورپ کو منظور نہيں ہے۔ اس تفريق کے خاتمے سے سياستدانوں کي اپني حيثيت بھي متاثر ہوگي۔ يہ کام اگر کوئي کر سکتا ہے تو صرف اور صرف عوام کر سکتے ہيں اور وہ يہ کام عوم کب کريں گے اس کے آثارابھي تو دور دور تک نظر نہيں آتے۔
2 users commented in " کمي کمين ۔ حصہ دوئم "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackبدمعاش سياستدان بن سکتا ہے مگر جاگيرادر اور سرمايھ دار تو روز اول سے اور سول اور ملٹری بيوروکيٹ کچہ دير بعد سے پاکستان کی جڑوں ميں بيٹہے ھوءے ھےں۔
Leave A Reply