ہمارا تعارف ان سے ایک قریبی دوست کے گھر ہوا جہاں وہ امیگریشن ملنے کے بعد ٹھرے ہوئے تھے اور اپارٹمنٹ کرائے پر ڈھونڈ رہے تھے۔

ذہین اتنے کہ امریکہ سے ماسٹرز کی اور الیکٹرانکس کی مرمت میں ماہر

محتاط اتنے کہ دوست کے ٹی وی کا ریموٹ خراب ہونے کی صورت میں اپنا ریموٹ استعمال کرنے کے بعد واپس بریف کیس میں رکھ دیتے۔ ایک دن ان کی بیگم نے کہا ریموٹ یہیں کیوں نہیں رکھ دیتے، کہنے لگے کیا تم چاہتی ہو جس طرح دوست کے بچوں نے اپنا ریموٹ توڑا وہ میرا بھی توڑ دیں۔ کینیڈا کی امیگریشن کے بارے میں اپنے والدین کو تب تک نہیں بتایا جب تک جہاز کی بکنگ نہیں کرالی۔ ہم نے پوچھا اتنی احتیاط کیوں؟ کہنے لگے جو راز آپ اپنے پاس نہیں رکھتے وہ راز راز نہیں ہوتا۔

کھانا کھانے کے اتنے ماہر کہ سب سے پہلے ہر ڈش تھوڑی تھوڑی چکھتے اور بعد میں جو سب سے مزیدار لگتی وہی کھانا شروع کر دیتے اور خوب پیٹ بھر کر کھاتے۔

منہ پھٹ اس قدر کہ ایک روز اپنے دوست کی بیوی کے گلے میں سونے کا ہار دیکھ کر بولے، بھابی یہ گلے میں پٹا کیوں ڈالا ہوا ہے۔

کام نہ آنے میں بخیل اتنے کہ ہم سے بہت سارے کام لینے کے باوجود جب ہمیں کام پڑا تو آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں۔ ہم نے ٹی وی کی سکرین بدلنی تھی جو ہم سے سیٹ نہیں ہوئی۔ ہم نے اپنے عزیز کے ہاتھ ٹی وی ان کے گھر بھیجا تو کہنے لگے یہ کیوں لائے ہو، یہ تو ایسے ہی پڑا رہے گا۔ ان کی بیوی نے تب انہیں شرم دلوائی جب ہم اپنا ٹی وی اسی وقت واپس لینے پہنچ گئے اور پھر انہوں نے ٹی وی ٹھیک کر کے ہی واپس کیا۔

بچوں سے انتی چڑ کہ ہر بچے کے کاموں میں کیڑے نکالتے رہنا۔ خدا نے ان کی شاید اسی وجہ سے سن لی اور وہ آج تک بچوں کی نعمت سے محروم ہیں۔

کافی عرصے بعد ہماری ان سے ملاقات پچھلے سال ہوئی اور ہمیں جان کر کوئی حیرت نہیں ہوئی کہ وہ ویسے کے ویسے ہی ہیں۔ ایک روداد ہم سنا رہے تھے تو ہمیں بار بار ٹوک کر ہر واقعے پر جرح کرتے جاتے تھے اور کہتے تھے بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے۔