ہمارے ایک مہربان جو سترہویں گریڈ کے استاد ہیں ذات کے جولاہے ہیں مگر راجہ کہلاتے ہیں۔ ان کی شادی کشمیریوں کی ایک انپڑھ لڑکی سے ہوئی۔ اس کیساتھ سترہ سال کی رفاقت کے بعد جب انہیں معلوم ہوا کہ شریک حیات پڑھی لکھی ہونی چاہیے تو تب دیر ہو چکی تھی کیونکہ ماں کی رکھوالی کرنے کیلیے ان کے بچے جوان ہو چکے تھے۔
استاد ہونے کی وجہ سے انہوں نے اپنے سسرالیوں کو ذاتی توجہ سے پڑھایا۔ ایک ساالا ایف اے کے بعد ملازمت کرتا ہے اور دو سالیاں ایف اے کے بعد شادی کے انتظار میں بیٹھی ہیں۔ اس پڑھائی کا ایک نقصان ان کے سسرال والوں کو یہ ہوا کہ لڑکیوں کیلیے کوئی موزوں رشتہ نہیں مل رہا۔ اگر وہ انپڑھ ہوتیں تو اب تک کسی ایرے غیرے کیساتھ بیاہی گئی ہوتیں۔
پچھلے ہفتے محلے کے ریٹائرڈ استاد جو خود بھٹی کشمیری ہیں اپنے رشتے دار کا رشتہ دیکھنے راجہ صاحب کے سسرال جا پہنچے۔ سسرالی تو گھر نہ ملے مگر پڑوسیوں سے بات چیت کے دوران جب انہیں پتہ چلا کہ راجہ صاحب کا یہ سسرال ہے تو انہوں نے فوری فیصلہ دے دیا کہ یہاں رشتہ نہیں ہو سکتا۔ یہ بات جب راجہ صاحب کی ساس تک پہنچی تو انہوں نے بھٹی صاحب کو خوب صلواتیں سنائیں اور پیغام بھیجا کہ راجہ صاحب جیسا جوائی تو کسی کسی کو ملتا ہے اور وہ راجہ صاحب کیلیے ایسے سو رشتے چھوڑنے کو تیار ہے۔
اب جب سے بھٹی صاحب کو پتہ چلا ہے کہ ان کی بات راجہ صاحب تک پہنچ چکی ہے وہ تب سے راجہ صاحب سے ملنے کی کوشش کر رہے ہیں اور راجہ صاحب ہیں کہ ان کے ہاتھ ہی نہیں آ رہے۔ راجہ صاحب کا فرمانا یہ ہے کہ پچیس سال کی راہ و رسم کو ذات پات کے چکر میں بھٹی صاحب نے خاک میں ملا دیا۔
ذات پات کے چکر صرف برصغیر پاک و ہند میں ہی ہیں۔ ہمارے آباؤ اجداد بتایا کرتے تھے کہ جب دوسری جنگ عظیم میں لوگ فوج میں بھرتی ہونے لگے تو انگریز چھوٹی ذات کے آدمیوں کو بھرتی نہیں کیا کرتے تھے تب چھوٹی ذات والوں نے اپنے ناموں کیساتھ مغل، راجہ، چوہدری، بھٹی، کشمیری، بٹ، جنجوعہ کا اضافہ کر کے اس مشکل کا حل نکال لیا۔
سچی بات یہ ہے کہ انگریزوں کے پالے ہوئے رشتے ہی ہماری قوم کو ذات پات میں اب تک تقسیم کئے ہوئے ہیں مگر خود ان کے ہاں ذات پات کا کوئی چکر نہیں ہے۔ وہ اپنے آخری نام سے اپنے خاندان کی تاریخ وضح کرتے ہیں اور کوئی بھی ان کے ہاں جولاہا، موچی، نائی اور قصائی نہیں ملتا۔ ہر کوئی کام کرتا ہے مگر اپنے اصلی نام سے جانا جاتا ہے۔ جہاں ملیں گے، قطار بنائیں گے، کھانا کھائیں گے برابری ہی دکھائیں گے۔ گورے کالے کی تقسیم بھی عرصہ ہوا انہوں نے ختم کر دی ہوئی ہے مگر ایک ہم ہیں جو اب تک ذات برادری کے چکروں سے ہی نہں نکل سکے۔
7 users commented in " ذات پات "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackواقعی افسوس کی بات ہے کہ ہمارا معاشرہ ابھی تک اس “گھن چکر” سے نہیں نکل سکا اور اچھے خاصے “پڑھے لکھے” لوگ بھی اس کا شکار ہیں۔
وارث صاحب اپکی مراد پڑھے لکھے جاہل سے ہے ۔ پتا نہیں لوگوں کے دماغ کب باقی جسم کی طرح بھی بڑے ہوں گئے ۔ یہی وجہ ھے کہ پاکستان میں مرد حضرات 30 سال کی عمر میں بھی اپنے آپ کو بچہ سمجھتے ہیں ۔
جناب یہاں تو یہ حال ہے کہ آباؤ اجداد نے اسلام قبول کیا پر ان کی آنے والی نسلیں اب بھی اپنے آباؤ اجداد پر فخر کرتی ہیں کہ ہم راجپوت ہیں اعلی نسل کے۔ جاٹ ہیں۔ ہم بہت جنگجو ہیں۔ بجائے غوری کے سپوت کہلانے کے۔ وہ ابھی بھی ہندوالنسل اور سکھوں سے تعلق جوڑت ہیں۔ کہتے ہیں کے ہم پرتھوی راج چوہان کی نسل سے ہیں۔
قرآن کو جھٹلاتے ہیں ہم لوگ ذات پات کے چکر میں
اللہ فرماتے ہیں کہ ہم نے تمہارے گروہ اور قبیلے بنائے پہچان کے واسطے ورنہ اللہ کے نزدیک افضل تو زیادہ تقوی والا ہے
۔ پر ان کو کیا۔۔۔۔
یہ ذات پات کا نظام ہندو باقیات میں سے ہے اور بد ترین شیطانی چکر ہے ، بعض لوگ اسے سورہ حجرات کے حوالے سے ذات پات کو پہچان کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں ۔ ذات پات کے حوالے سے پہچان ان لوگوں کو تو وارا کھاتی ہے جو اونچی ذات والے خیال کیے جاتے ہیں لیکن جو نیچی ذاتیں خیال کی جاتی ہیں انکے حوالے سے پہچان ذلت کا سبب بنتی ہیں چاہے انسان کتنا پڑھا لکھا ہے اور صاحب کردار اور صاحب تقوی ہو۔۔۔۔۔۔ جس طرح فرعونیوں نے بنی اسراٰیل کا استحصال کیا اس طرح بڑی ذاتوں والے لوگ چھؤتی ذاتوں کا استحصال صدیوں سے کر رہے ہیں اور اس شیطانی چکر کو کسی نہ کسی طرح قاٰم رکھنا چاہتے ہیں چاہے انہیں مذہب کا حوالہ درکار ہویا کوی اور حوالہ ۔بر صغیر کے نیچی ذات کے لوگوں نے اس ذلت کے نجات کے لیے اسلام قبول کیا کیونکہ اس میں مساوات کا دعویٰ کیا جاتا ہے ۔ لیکن بڑی ذات کے لوگوں نے اسے لازمی بنانے کے لیے پہچان کے لیے ضروری قرار دے دیا۔ آخر انسان کو اپنی پہچان بنانے کے یہ حق تو دیا جاے کہ ایسے حوالے سے اپنی پہچان بناے جو کم از کم اس کے لیے ذلت کا سبب نہ ہو
آخر انسان کو اپنی پہچان بنانے کے یہ حق تو دیا جاے کہ ایسے حوالے سے اپنی پہچان بناے جو کم از کم اس کے لیے ذلت کا سبب نہ ہو۔۔
درست۔ متفق علیہ۔
پاکستان میں پچھلے کئی سالوں سے چھوٹی ذات والے لوگ شیعہ بن کر اپنی نیچ ذات کے چکر سے چھٹکارا حاصل کر رہے ہیں کیونکہ شیعوں میں سب باوا جی، شاہ جی اور سید ہوتے ہیں۔
مصیبت یہ ہے کہ حق حلال کمانے کو باعث ذلت بنا دیا گیا ہے،لوگوں کے پیشوں کو انکی ذات بنا کر انسانیت کی تذلیل کی جاتی ہے!
تو افضل صاحب پھر کیسا اسلام اور کہاں کا اسلام؟؟؟
Leave A Reply