پچھلے دنوں صدر مشرف نے اپنے ايک انٹرويو ميں بتايا کہ ان کي مقبوليت ميں کمي واقع ہوئي ہے مگر وہ اپنا مشن ضرور پورا کريں گے۔ يہ کس نے کہا کہ صدر مشرف پہلے عوام ميں مقبول تھے اور اب ان کي مقبوليت ميں کمي آ گئي ہے۔ ہوسکتا ہے ان کے ريفرنڈم کے سرکاري نتائج کو ديکھ کر انہوں نےاپني مقبوليت کا اندازہ لگايا گيا ہو۔ حقيقت تو يہ ہے کہ صدر مشرف نہ پہلے مقبول تھے اورنہ اب مقبول ہيں۔ اگر پہلے مقبول ہوتے تو ضرور صدارتي نظام رائج کرکے براہِ راست انتخاب جيت کر حکومت ميں آتے۔ ان کي مقبوليت کا اندازہ ريفرنڈم والے دن خالي پولنگ سٹيشنوں  سے ہي ہو گيا تھا۔ يہ الگ بات ہے کہ جو ووٹ بھگتاۓ گۓ ان ميں سے نوے فيصد سے زيادہ ووٹ انہيں پڑے۔

ہميں ياد ہے جب جنرل ضياالحق کا ريفرنڈم ہوا تو انہوں نےايک انوکھا سوال کيا تھا۔ وہ سوال يہ تھا کہ اگر وہ اسلامي نظام چاہتے ہيں تو صدر ضيا کو ووٹ ديں۔ اب صورت يہ تھي کہ اگر آپ صدر ضيا کو ووٹ نہ ديتے تو اسلام کے خلاف ہوتے اور اگر اسلامي نظام کے حق ميں ووٹ ديتے تو ضيا کے فوجي اقتدار کو ووٹ ديتے۔ ہم اس ريفرنڈم کے گواہ ہيں اور اپني آنکھوں سے پولنگ اسٹيشنوں کو سنسان ديکھ چکے ہيں۔ جنرل ضيا کے حمائيتي اپنا ووٹ دس دس بار بھگتا رہے تھے کيونکہ مخالف پارٹي کا کوئي بھي ايجينٹ وہاں موجود نہیں تھا۔ ہم نے بھي اپنے دوست کے کہنے پر اس دن ووٹ ڈالا تھا اور وہ جنرل ضيا کے خلاف ڈالا تھا بلکہ ايک بہت بڑي گالي بھي ووٹ کي پرچي پر لکھ آۓ تھے۔

شکر ادا کرنا چاہيۓ جنرل مشرف کو ٩١١ کا وگرنہ ان کے آقا ان کو زيادہ عرصہ برداشت نہ کرپاتے۔ ہميں ياد ہے صدر کلنٹن نے ہمارے باوردي صدر کو وردي ميں ملنے سے انکار کر ديا تھا۔ کہتے ہيں کبھي کبھي ايک کے مرنے سے دوسرے کي قسمت جاگ اٹھتي ہے۔ يہي کچھ جنرل مشرف کے ساتھ ہوا۔ نيويارک ميں مرنے والے ٣٥٠٠ افراد جنرل مشرف کيلۓ رحمت ثابت ہوۓ اور جنرل مشرف اپنے آقاؤں کے منظورِ نظر بن گۓ۔ اس مجبوري کي وجہ سے نہ وردي آقاؤں کيلۓ مسٔلہ رہي اور نہ غير جمہوري حکومت۔ اس کے بعد پھر کچھ نہ پوچھيں کہ جنرل مشرف نے اپني جان کي امان پانے کيلۓ ايسے ايسے عہد و پيماں توڑے کہ ان کے دوست احباب ساري عمر ان کي اس زيادتي کو بھول نہ پائيں گے۔

صدر مشرف تو نہ کل مقبول تھے اور نہ آج مقبول ہيں ۔ وہ کل بھي زبردستي اقتدار پر قابض ہوۓ تھے اور آج بھي زبردستي اقتدار پر قبضہ جماۓ بيٹھے ہيں۔  اگر انہوں نے واقعي عوام ميں مقبول ہونا ہے تو پھر ان کو اپنے عوام کي بھلائي کيلۓ کچھ کرنا ہوگا وگرنہ اگر وہ اپنے پيٹ پر ہي ہاتھ پھيرتے رہے تو بعد ميں ان کو جنرل ايوب اور جنرل ضيا کي طرح ياد کرنے والا کوئي نہ ہوگا۔