آج کی تازہ خبر جو ایک مسلمان ملک کے میڈیا کی وساطت سے ہم تک پہنچی ہے۔ یہ میڈیا مسلمان ملک کی جمہوری حکومت اور اس کے آقاؤں کے زیرکنٹرول ہے یعنی سو فیصد آزاد نہیں ہے۔
دیر میں آپریشن، سیکیورٹی اہلکار جاں بحق، بڑی تعداد میں عسکریت پسند ہلاک
اسلام آباد – صوبائی حکومت اور عوام کی درخواست پر فرنٹیئرکور نے دیر میں آپریشن شروع کر دیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق لوئر دیر کے علاقے لال قلعہ اور اسلام پورہ میں مشتبہ عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر کاروائی کی جا رہی ہے، کالا ڈگ میں فائرنگ کا شدید تبادلہ ہوا جس میں بڑی تعداد میں عسکریت پسند ہلاک ہو گئے جن میں ایک اہم مقامی کمانڈر بھی شامل ہے۔ آپریشن میں ایک سیکیورٹی اہلکار شہید جبکہ چار ذخمی ہو گئے۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ لال قلعہ کے علاقے میں فائرنگ کا تبادلہ جاری ہے۔
اب اگر یہی خبر ایک درد دل مسلمان اور آزاد میڈیا کی وساطت سے ہم تک پہنچتی تو اس طرح ہوتی۔
دیر میں آپریشن، فوجی شہید، بڑی تعداد میں مخالف گروپ کے مسلمان شہید
اسلام آباد – صوبائی حکومت کی درخواست اور عوام کی مخالفت کے باوجود فرنٹیئرکور نے دیر میں آپریشن شروع کر دیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق لوئر دیر کے علاقے لال قلعہ اور اسلام پورہ ميں مشتبہ مسلمان باغیوں کے ٹھکانوں پر کاروائی کی جا رہی ہے۔ کالا ڈگ میں فائرنگ کا شدید تبادلہ ہوا جس میں بڑی تعدا میں مسلمان باغی شہید ہو گئے جن میں ایک اہم مقامی مسلمان کمانڈر بھی شامل ہے۔ آپریشن میں ایک فوجی شہید جبکہ چار زخمی ہوگئے۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ لال قلعہ کے علاقے میں فائرنگ کا تبادلہ جاری ہے۔
یہ لڑائی ایک بڑے جمہوری ملک کے ایماء پر اپنے ہی مسلمان عوام کیخلاف لڑی جا رہی ہے جس ميں دونوں طرف سے مسلمان شہید ہو رہے ہیں۔ یہ وہی علاقہ ہے جہاں پچھلے ساٹھ سال سے یہی مسلمان امن کی زندگی گزار رہے تھے مگر نو گیارہ کے بعد باغی قرار دے دیے گئے۔ حکومت اگر چاہے تو ان کیساتھ مذاکرات کر کے تمام مسائل آسانی سے حل کر سکتی ہے مگر مغرب نواز حکومت اور اس کے حمایتی مزاکرات کے حق میں نہیں ہیں۔
6 users commented in " میڈیا کی زبان کا فرق "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackاچھی سوچ ہے۔ مگر اب اغلبا اس سوچ کا وقت گزر چکا۔ اب عمل کا وقت ہے۔ مجھے فریقین میں سے کسی سے بھی ہمدردی نہیں مگر، جب مذاکرات کا وقت تھا، کسی نے دلچسپی نہ لی۔
اب صرف ہتھیاروں کی زبان میں بات ہوگی، اور نقصان دونوں طرف ہمارا ہی ہوگا۔ ملک کے حالات کسی سے بھی مخفی نہیں ہیں، اس وقت جب کہ ہم گو نا گوں مسائل سے دو چار ہیں، کسی قسم کا نیا مطالبہ لے کر اور پھر اس کی حمایت میں مسلح جد و جہد ملک کے لئے ہی نقصان دہ ہو سکتی ہے۔
اگر صرف الفاظ کے ہیر پھیر کا بھی مسئلہ ہے تو جسے چاہیں شہید لکھیں۔۔ لیکن اگر حق پر ہونے اور درست مقصد کے لیے جہاد پر شہید کہنا ہے تو پھر اگر دونوں طرف کے ہی شہید ہیں تو ایک دوسرے کے مقابل کیوں کھڑے ہیں؟ کچھ لوگوں نے تہیہ کر رکھا ہے کہ بندوق کے زور پر ساری دنیا کو اپنے جیسا بنا کر دم لیں گے۔۔۔ اگر یہ سوچ درست ہے تو سب شہید ورنہ کچھ ہلاک ، کچھ جابحق اور کچھ شہید ہوتے رہیں گے اور ہمیں ان کا فرق ملحوظ رکھنا پڑے گا۔
کالاڈگ بھی کوئی جگہ ہے یا کالا ڈھاکہ ؟
ہمیں تو یہ نیا لگا کہ میڈیا میں سرخیاں اب طالبان کے بجائے شدت پسند اور عسکریت پسند کے عنوان سے لگنے لگیں ہیں
اس مسئلہ کو حل کرنے کی بجائے اتنا اُلجھا کے رکھ دیا گیا ہے کہ اب سوائے امن کے حق میں قومی تحریک کے اس کا حل ہونا مشکل ہے ۔ کچھ عرصہ اور اس طرح چلتا رہا تو پھر بہت خطرناک حالات پیدا ہو جائیں گے ۔ جن علاقوں میں حکومت کی عملداری کے بہانے خون بہہ رہا ہے ان میں نہ حکومتِ برطانیہ کی عملداری تھی اور نہ حکومت پاکستاں کی آج تک ہوئی ہے
کیا دیر میں بہت سے دوسرے مذاہب کے لوگ رہتے ہیں کہ فرق ظاہر کرنے کو مسلمان لکھنا ضروری ہے؟
حیرت کی بات یہ ہے کہ ہم لوگ ریاست کو اسلام کا قلعہ تو کہتے ہیں مگو اس کے قوانین کو نہیں مانتے۔ ان نام نہاد مجاہدین کو کس نے یہ ھق دیا ہے کہ اسلام کے نام پر ایک اسلامی ریاست کے فوج سے جنگ کرے؟ اغوا برائے تاوان لوٹ مار اور منشیات کے کاروبار کے زریعے “جہاد“ کرنے والوں کو شہید کہنا فلسفہ شہادت کی توہین ہے۔ اور میرے لئے صرف سرکاری فوج کے نوجوان ہی شہید کہلائے جا سکتے ہین، کسی بھی غیر ریاستی قوت کو یہ اعزاز حاصل نہیںہونا چاہین
Leave A Reply