جاوید گوندل صاحب نے ہماری تازہ تحریر پر جو تبصرہ کیا ہے وہ باقاعدہ ایک پوسٹ ہے اسلیے اسے ہم یہاں چھاپ رہے ہیں۔ امید ہے جاوید گوندل صاحب برا نہیں منائیں گے۔
جاوید گوندل صاحب لکھتے ہیں۔
یارو!
کچھ ذکر بارے یہ بھی ہو جائے کہ ملک جل رہا ہے۔ اس کے پیچھے کون ہو سکتا ہے؟ ۔ آخر کب تک؟۔ کیا اپنی جان کی خیر مناتے بھاگتے ہوئے شدت پسند اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ انتہائی حساس اور ہائی ویلیو ٹارگٹس کے بارے میں تقریباّ سو فیصد درست معلومات کے ساتھ ہماری مختلف ایجنسیوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اسقدر تباہی جب اور جہاں چاہیں مچا سکتے ہیں؟۔ کیا ایسا تو نہیں کہ ہمارے ایجنسییز کے ہاتھ پاؤں باندھے جا چکے ہوں؟۔ یوں تو نہیں ُ ُ میری بُکل دے وچ چور نی“ والا معاملہ تو نہیں۔ کہ وہ جو دہشت گردی کے خلاف سو سالہ جنگ کا اعلان کرتے ہیں ُ ُ وہی“ اصلی دہشت گرد ہوں۔ جب خدانا خواستہ پاکستان کے ملکی وقار و آزادی کی دکان بڑھ جائے تو ُ ُ یہ“ اپنی دکان ننگ ملت، غدار وطن اور بزدل جرنیل مشرف کی طرح اپنے اپنے ولی نعمت برطانیہ و امریکا سدھار جائیں، اور اگلی کئی دہائیاں، ہم اپنی زخم زخم روح سے کرچیاں چنتے رہیں۔
موجودہ دہماکے افغانستان کی سویت یونین جنگ کے دور میں پاکستان کے اندر تب کی کے، جی، بی، خاد اور بھارتی را کی ملی بھگت سے ہونے والی دہشت گردی میں بہت مماثلت نظر آتی ہے۔ بس اس بار پرانے دہشت گردوں میں اپنے مذموم مقاصد میں بدنام بھارتی ایجنسی را پاکستان میں سرگرم ہے جس کے ساتھ موساد اور امریکی شامل ہیں۔؟ کیا یہ درست ہے؟ اگر درست ہے تو ہماری حکومت میں سبھی لوگ تو بکاؤ مال نہیں ہونگے،اس بات سے قطع نظر کہ وہ بھی پیپلز پارٹی کا حصہ ہیں مگر بہت سوں کو تو پاکستان میں ہی رہنا ہے اور ان میں سے بہت سے محب وطن بھی ہونگے تو پھر ان کی زبانیں کیوں بند ہیں؟۔ وہ کھل کر اصل حقائق عوام کو کیوں نہیں بتاتے؟
پوری دنیا کی مختلف خفیہ ایجنسیز کے پاس کاؤنٹر اینٹیلی جنس اور جوابی حملوں کا اپنا سا انداز ہوتا ہے۔ جس میں دشمن کو اسی کی زبان میں جواب دیا جاتا ہے تانکہ وہ اپنے مذموم مقاصد اور ملکی استحکام کو خراب کرنے سے باز آجائے، بے شک ایسے اقدامات اکثر اوقات مروجہ قانون اور اخلاقی ظابطوں کے پاند نہیں ہوتے جبکہ پاکستان او ر بھارت جیسے ممالک کے خفیہ اداروں کے پاس سالوں بلکہ دہائیوں تک کے لئیے پہلے سے تیار شدہ پلان ہوتے ہیں۔ کیا پاکستان میں را کی دہشت گردی بامبے دہماکوں کے بعد نئے نئے وزیر داخلہ بننے والے چد امبرم کے اس بیان کا متواتر تسلسل ہے جس میں موصوف نے دہمکی دی تھی کہ ہمارا اقدام ایسا ہوگا کہ ساری دنیا دیکھے گی۔ کیا موجودہ دہشدت گردی کی لہر ہی وہ جواب ہے جس کی دہمکی بھارتی وزیر داخلہ نے دی تھی ۔ یا اس سے دو قدم آگے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی اس سازش میں بھارت پورے زورو شور سے شامل ہے جس میں پاکستان کے اندر خدانخواستہ ایسے حالات پیدا کرنے ہیں کہ ریاست پاکستان کی عملا عمل داری ختم ہوجائے؟ تانکہ پاکستان کو اسکی جوہری طاقت سے محروم کر دیا جائے اور لگے ھاتھ پاکستان کا جغرافیہ مختصر کر دیا جائے۔؟ آخر ہماری ایجنسیز کے وہ پلان کیا ہوئے جو جوابی کاروائی کے متلق ہوتے ہیں؟ کیا پاکستان حکومت میں کچھ لوگ جان بوجھ کر کسی کے اشارے پہ آنکھیں بند کئیے ہوئے ہیں؟۔ یا پھر جمہوری حکومت کے چل چلاو کے لئیے فوج کو لانے کے لئیے جان بوجھ کر ایسے حالات پیدا کئیے جارہے ہیں؟۔ آخر پاکستان میں بہت سے بزعم خویش دانشور کیوں اسقدر زوروشور سے اس ساری دہشت گردی صرف اور صرف بھاگتے اور جان بچاتے چھپتے ہوئے نام نہاد اسلامی شدت پسندوں کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں۔ اس ضمن میں گورنر پنجاب کا راولپنڈی میں یہ بیان کہ نہ امریکہ ، نہ بھارت ان دہماکوں کا ذمہ دار ہے بلکہ یہ طالبان تحریک طرز کے دہشت گردوں کی کاروائی ہے، نزیر ناجی نے بھی جنگ کے صحفات پہ بھارت و اسرائیل کی صفائی دی ہے اور امریکہ کو داد۔ آخر ہمارے نام نہاد زعماء بھارے و امریکہ کی اس شدومد سے صفاءیاں کیوں دے رہے ہیں؟ جبکہ پاکستان میں سبھی اہل بصریت بھاگتے ہوئے باغیوب کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ وہ اس مختصر وقت میں انتائی ہائی ویلیو ٹارگٹس کو سو فیصد درست معلومات کے ساتھ اس قدر کامیابی سے نشانہ بنا سکیں۔ اسکے لئیے کسی ریاست کے وسائل اور خفیہ ادروں کی سالوں کی اکھٹی کی ہوئیں معلومات کا ہونا بہت ضروری ہے۔ تو پھر ان نام نہاد دانشوروں کی امریکہ بھارت اور اسرائیل کے لئیے اتنی صفائی دینا کیا معانی رکھتا ہے۔؟ کیا انہیں بھی کہیں بہت اوپر سے اشارہ ہوچکا ہے؟۔
ایک بات تو طے ہے کہ پاکستان جیسے ممالک ہر قسم کے بحرانوں کے پیٹ سے زندہ برآمد ہوتے ہیں۔ پاکستانی قوم نے جس قدر مسائل جھیلے ہیں اور متواتر جھیل رہی ہے۔یہ قوم (پاکستانی قوم) دہشت گردی کے اس تازہ لہر کو بھی جھیل جائے گی مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد جنگ سے کیا پاکستان مضبوط اور محفوظ ہوا ہے؟ کیا قومی غیرت و آزادی کو گروی رکھ صرف مقتدر طبقے کی اللوں تللوں کے لئیے حاصل کی گئی امداد و خیرات سے پاکستان کتنے دن چل سکتا ہے؟ دہشت گردی کے خلاف اس شرمناک جنگ میں جسمیں ہماری انگت اموات جو نیٹو ، افواج، امریکن افواج اور ان ممالک کے عوام کی کل ملا کر ان سب سے کئی گنا زیادہ اموات پاکستانی فوج اور عوام کی ہوئی ہیں۔ پاکستان اسووقت کھربوں ڈالرز کا نقصان اٹھا چکا ہے۔ کیا امریکہ سے ملنے والے کچھ ارب ڈالرز کے بدلے میں اس نام نہاد جنگ میں پاکستان کو ہروال دستہ بنے رہنا چاہئیے۔ پاکستان کی دکھتی رگ اور شہ رگ کشمیر کا مسئلہ حل کئیے بغیر، پاکستان کے لئیے کسی طویل المدت توانائی حاصل کرنے کے بڑے پراجیکٹس میں مدد دئیے بغیر یا پاکستان میں بڑی صنعتوں میں سرمایہ کاری کئیے بغیر امریکہ کے چند سو ارب ڈالرز جس کا بیشتر حصہ مستقبل کے این او آرز کا حصہ بن جائے گا۔ کیا ایسی صورت میں ہمیں امریکہ سے اتنی بڑی قیمت ادا کرنے کے بعد دوستی کی پینگیں بڑھاتے چلے جانا چاہئیے یا امریکہ سے کچھ اپنے مطالبات بھی منوانے چاہئیں؟۔
پاکستان کے غریب عوام جن کی چالیس فی صد عوام انتائی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں، جو ہر روز جسم اور جان کا تعلق آپس میں رکھتے ہوئے بمشکل زندہ ہیں۔ ایک اخباری خبر کے مطابق صدر زرداری نے این اور آر کے تحت ان غریب عوام کا تقریبا ڈیڑھ کھرب لُوٹا ہوا ر وپیہ معاف کروایا ہے ۔ این آر او جو مشرف اور امریکہ کی اختراع تھی ۔ ایسے میں امریکہ کا بار بار اس بات پہ بضد ہونا کہ امریکہ پاکستان میں جمہوری حکومت کے ہاتھ مظبوط کرے گا، کیا امریکہ کے نزدیک پاکستان میں جمہوریت کا یہی رول ماڈل ہے۔ جس میں پاکستان مذید غریبہ کا شکار ہو جس سے اور افراتفری اور انتشار پھیلے؟
کیا یہ سارے عوامل اور دہشت گردی اسلام کے بارے میں سطحی سی معلومات رکھنے والے دہشت گردوں کی منصوبہ بندی ہے یا اس کے پیچھے شاطر اور عیار ذہن کام کر رہے ہیں؟ یہ ہے وہ اصل سوال جس سے پردہ اٹھنا ضروری ہے۔ ورنہ جب لٹیرے اپنے والی نعمت آقاؤں کی پناہ میں بھاگ جائیں گے جیسے مشرف نکل گیا اور ہم سانپ کے نکلنے کے بعد محض لکیر پیٹ رہے ہونگے۔ اس کلچر کو پاکستان میں بدلنا بہت ضروری ہے۔ ہمارے مسائل ہمیں ہی حل کرنے ہونگے ۔ آزاد خطے اور ممالک ہمیشہ کے لئیے غیر ملکی خیرات اور امداد پہ نہیں چل سکتے ۔ اور غیر ملکی امداد بھی ایسی کے جس کے دینے والے کے ھاتھ سے امداد میں ملے زہر کی بو آتی ہو۔
18 users commented in " دہشت گرد کون؟ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackجاوید سر کی آواز بہت کچھ کہتی ہے ۔۔
ملک کا نظام جیسا بھی ہے ۔۔ اپنا ہی سجایا ہوا ہے
گوندل صاحب کی چند باتیں درست اور چند سے اختلاف ہے۔ پہلی اختلافی بات تو یہ ہے کہ طالبان کو اس سب سے مبرا قرار دیا جائے۔ یقیناَ پیٹ پر بارود باندھ کر پھٹنے والا یہ سب دین کے نام پر کرتا ہے اور اس کو یہ تحریک طالبان دیتے ہیں۔ طالبان کو تحریک کہاںسے ملتی ہے یہ بہرحال طے ہونا ابھی باقی ہے۔ لیکن انہیںتحریک کوئی بھی دیتا ہو، جب آپ ان سانپوں کا سر کچل دیںگے تو پھر آپ ان کے غیر ملکی آقاؤں کا بھی ٹینٹوا دبا سکیںگے کہ پھر ان کے پاس یہ ہتھیار نہ ہوں گے جن سے وہ آپ کو جواب دے سکے۔ سو امریکہ ہو یا بھارت، پہلے ہمیں ان کے ان ہتھیاروں کو تباہ کرنا ہے اور پھر اپنا وار کرنا ہے اور ہمیں وار کرنے کا موقع تبھی ملے گا جب ہم دشمن کا وار ضائع کردیں گے کہ اس جنگ میں پہل بہرحال انہوں نے کی ہے۔
جاوید صاھب ، پریشان ہیں کہ کوئ اصل حقائق کیوں نہیں بتات۔ ان اصل حقائق سے انکی مراد وہ حقائق ہیں جو وہ جانتے ہیں۔ دراصل انہیں یہ جملہ اس طرح لکھنا چاہئیے تھا کہ کوئ انکے معلوم کئے ہوئے اصل حقائق کی توثیق کیوں نہیں کرتا۔ کیونکہ اس میں انہوں نے اصل حقائق تو بتا دئیے ہیں۔
جب سے ہوش سنبھالا ہے یہ سنتے آئے ہیں کہ سپر پاورز کے منصوبہ ساز دس بیس سالوں کے لئے منصوبے بنا کر ان پہ عمل پیرا ہوتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ امریکہ کو ویتنام سے نکلنا پڑا، روس کے ٹکڑے ہوئے، انگریز حکومت کا سورج ڈوبا، دنیا اس عالمی کساد بازاری کے دور مین داخل ہوئ کہ خود امریکہ کا دیوالیہ نکل گیا۔ اب ان عظیم منصوبہ سازوں کے دس اور بیس سالہ منصوبہ بندی کے باوجود ایسا کیوں ہو گیا۔
جہاں تک ہماری ایجنسیز کی کارکردگی کا تعلق ہے توعالم یہ ہے کہ لیاقت علی خان سے لیکر مرتضی بھٹو تک تمام لوگوں کے قاتلوں کا کوئ پتہ نہ لگایا جا سکا۔ چاہے وہ علیگڑھ کالونی میں ہونے والی خوں ریزی ہو، یا چرچ جلانے کے واقعات، کبھی انکے ملزمان سامنے نہ آسکے۔ قوم کو یہ نہیں معلوم کہ انیس سو پینسٹھ کی جنگ کیا واقعی ہم جیتے تھے۔ کیا واقعی بنگالی ہم سے الگ ہونا چاہتے تھے، کیا واقعی نواز شریف کو کارگل حملے کا پتہ نہیں تھا۔ اوجھڑی کیمپ کا واقعہ کیا واقعی ایک حادثہ تھا۔
انکی یہ بات صحیح ہے کہ نام نہاد دانشور طبقہ اسلام پسندوں کے پیچھے پڑا ہوا ہے کہ وہ دہشت گردی کے ان واقعات کے پیچھے موجود ہے۔ یہاں ایک دلچسپ سوال یہ ہے کہ اسلام پسند ان دہشت گردوں کے دفاع پہ کیوں اتنے مستعد ہیں۔ میں ٹی وی پہ ایک پروگرام دیکھ رہی تھی جس میں میزبان جناب فضل الرحمان سے صرف یہ کہلوانے کی جدو جہد میں لگا ہوا تھا کہ آپ کہہ دیں کہ یہ خود کش حملے جو کوئ بھی کر رہا ہے وہ غلط ہیں۔ انہوں نے یہ بیان نہیں دیا۔ اور آخر میں زچ آکر انہوں نے کہا کہ میں اسکا جواب علم کی روشنی میں دینا چاہوں گا۔ اسے ایسے نہیں دے سکتے۔ علم کی یہ روشنی انہیں شاید روز قیامت ہی ملے۔ یہ انکا نہیں تمام بزعم خود اسلام پسندون کا حال ہے۔ اگرچہ کہ یہ اسلام پسند یہ بھی نہیں جانتے کہ یہ دہشت گرد ہیں کون اور انکے مقاصد کیا ہیں۔ سارا زور بیان ان مبینہ اسلام پسند دہشت گردوں کی مظلومیت کو بچانے میں اور انکے مخالف لوگوں کے سر کچلنے میں صرف ہو جاتا ہے۔ اسکے بعد جو طاقت بچتی ہے اس میں سے ایک نحیف آواز آتی رہتی ہے کہ یہ امریکہ کروا رہا ہے، یہ ہندو اور اسرائیلی ملے ہوئے ہیں۔ یہ ہمارا ستیاناس کر رہے ہیں۔ حالانکہ ہم جیسے بے وقوفوں کو نچانے کے لئے کسی ایسے خاص گٹھ جوڑ کی ضرورت بھی نہیں۔
اسلام پسندوں کا ان دہشت گردوں کا دفاع اتنا زیادہ ہے کہ لگتا ہے کہ اگر کسی بم کے اوپر ایک آیت قرآنی لکھ کر انکے حوالے کردی جائے کہ یہ جناب کہوٹہ کے نیوکلیئیر پلانٹ میں رکھ آئیں کہ اس سے اسکی حفاظت رہے گی تو یہ یہیں کریں گے۔ آپ لے آتے ہیں جب تیر خطا ہوتا ہے اور جب انہیں کوئ روکے گا تو اسے نام دیں گے کہ یہ مذہب کو رگید رہے ہیں۔
کیا ایسا ممکن نہیں کہ یہ تمام اسلام پسند محب الوطن دوسرے لوگوں کو مسلمان سمجھتے ہوئے اور اسی ملک کا مخلص شہری سمجھتے ہوئے انکے ساتھ ملکر کوئ بہتر لائحہ عمل سوچیں۔
جاوید گوندل صاحب کی تحریر غور طلب ہے لیکن فائدہ تبھی ہے کہ اپنے ذہن پر سوار طالبان یا کوئی اور بھوت اُتار کر سوچا جائے ۔
آپ جانتے ہیں کہ میرا ساری عمر کا تعلق دفاعی اداروں سے رہا ہے اور اللہ کی مہربانی سے تین ممالک میں اپنے ملک کی نمائندگی بھی کی ہے ۔ جس طرز کے حملے لاہور میں ایک ہی دن تین حساس مقامات پر ہوئے ۔ جی ایچ کیو پر ہوا اور پریڈ لین کی مسجد پر ہوا انہیں طالبان کی کاروائی کہہ کر ٹالا نہیں جا سکتا ۔ ایک محتاط مطالعے کے مطابق اس نوعیت کی تربیت اور مہارت طالبان کے پاس نہیں ہے ۔
اگر فرض کر بھی لیا جائے کہ طالبان نے یہ قابلیت حاصل کر لی ہے تو اگلا سوال ہے کہ ان کے پاس استعمال کیا جانے والا اسلحہ اور دولت کہاں سے آ رہے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہ اُنہیں اس بڑے پیمانے پر اتنی مہارت کی تربیت کون دے رہا ہے ؟
اگلا مگر بہت اہم سوال ہے کہ جس طرز پر یہ حملے ہوئے یہ بغیر حملہ کرنے والوں کے ساتھیوں کے ان جگہوں میں ہمہ وقت موجودگی کے یا پھر فضا سے لی گئی محتاط درست زمینی معلومات کے کئے جانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے
ماضی میں جب بھی میں نے اس معاملہ پر لکھا چند قارئین نے بلاجواز اور بے ربط یلغار کر دی ۔ اور مجھے طالبان کا ساتھی قرار دیا حالانکہ میں ان نام نہاد پاکستانی طالبان کے خلاف ایک سے زیادہ بار لکھ چکا ہوں
بہت اعلیٰ تحریر ہے اور فکر انگیز بھی مگر جیسا کے بزرگ اجمل صاحب نے فرمایا کہ ائدہ تبھی ہے کہ اپنے ذہن پر سوار طالبان یا کوئی اور بھوت اُتار کر سوچا جائے
مگر یہ سب وہ لوگ تو کر لیں گے جن کو بس غلط فہمی ہوگی مگر جن کو بغض ہوگا اور جو قرآن کو غلط مانتے ہوں گے جو صحابہ کرام کو کافر کہیں گے اور نبی پاک کے گھر والیوں کو گالیاں دین گے اور اسکو عبادت جانیں گے اور جن کا دامن مسلمانوں کی جڑ کاٹنے جیسی خبیث کاروائیوں سے بھرا ہوگا جو ابن یہود ، ابن سبائی ہوں گے وہ کبھی بھی ایسا نہ کر سکیں گے تو انکو فائدہ کیسا؟ اور ہو بھی تو کیوں
کھیل کے جب وہ بھی ایک اہم کردار ہیں تو بھلا بنا بنایا کھیل بگاڑ دین گے؟ ایسے بدھو تو وہ نہیں البتہ بدھو وہ ضرور ہیں جو دن کی روشنی میں بھی نہیں دیکھ پارہے
اس لیئے جب بھی کوئی ایسی نشاندہی کرتا ہے ابن سبائیوں کا بچہ بچا حرکت میں آجاتا ہے اور اور آجکل تو بقول ان کے پادریوں کے صدیوں کی محنت رنگ لانے والی ہے اور مدینہ ، مکہ پر قبضہ بھی ہونے جارہا ہے تو ان کی عورتیں کیوں کارخیر سے محروم رہ جائیں؟ بس دیکھتا جا سنتا جا اور سر دھنتا جا
واللہ خیر الماکرین!
نہیں معلوم اھمد صاھب، کیون ہمیشہ صرف ایک ہی طرف اشارہ کر کے رہ جاتے ہین۔ انکے اشارات سے مجھے تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ وہ شیعوں کو اس میں شامل سمجھتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ بھی شبہ ہوتا ہے کہ وہ راقم کو بھی شیعہ سمجھکر انکے کھاتے میں ڈال رہے ہیں۔ بہر حال شیعہ پاکستانی آبادی کا بیس فی صد ہیں تو اندازہ کر لیں کہ وہ کتنے ہیں۔ اب یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ اپنے ملک کو مستحکم کرنے کے لئے تقریبآ ساڑحے تین کروڑ آبادی کو تہہ تیغ کر دیں۔ جس زمانے میں افغانی طالبان پیدا کئیے گئیے ہیں۔ اور پاکستانی مجاہدوں کو افغانستان لیجا کر جہاد کی تربیت دی جاتی تھی۔ تو انکو سب سے پہلے شیعوں سے نفرت کا سبق دیا جاتا تھا۔ پلٹ کر واپس آنیوالے کہا کرتے تھے کہ پہلے شیعوں کو مارو پھر کافر کو۔ اس وقت کا جہاد سعودی حکومت کی طرف سے بھی فنڈ کیا گیا۔ اور طالبان میں عرب شہریت کے لوگ بھی کافی تعداد میں تھے۔ یہ نظریات انہی کی طرف سے آئے۔ نہ صرف یہ بلکہ شدت پسندی کے نظریات کا بھی بہت کچھ اس سے لینا دینا ہے۔ جبکہ پاکستانی شیعوں کو ایران کی اخلاقی سپورٹ حاصل رہی جسکی وجہ سے شیعوں کو پاکستان میں ان اعمال کی بھی اجازت رہی جنکی ایران مین بھی اجازت نہین۔ خود انکی روحانی وابستگی بھی ایران کے ساتھ کافی رہتی ہے۔
لیکن جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ساڑھے تین کروڑ انسانوں کو تہہ تیغ کرنا آسان نہیں، ایسے ہی جیسے دو فیصد قادیانیوں کو صفحہ ء ہستی سے مٹایا نہیں جا سکتا۔ تو ایسے معاملات کو قابو میں رکھنے کے لئےسیاسی نظام بنائے جاتے ہیں۔ جنہیں جذبات کے بجائے مدبرانہ طریقوں سے چلایا جاتا ہے اور اسے ہی سیاسی استحکام حاصل کرنا کہتے ہیں۔ اب یہ آپکی قسمت اور اہلیت کے اس ملک میں آپ ایسا نظام لانے میں کامیاب نہ ہو سکے کہ اقلیت کے بجائے آپکی چلے۔ اور صورت حال یہ ہو گئ کہ اسوقت ملک کے صدر اور وزیر اعظم دونوں آپکے بقول ابن سباءیوں میں سے ہیں۔ اسکی بھی بہت ساری دنیاوی وجوہات ہیں۔ جن پہ عالم جذبات میں آپکی نظر نہیں جاتی۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ ہم امریکہ کی اپنے ملکی معاملات پہ بے حد اعتراض کرتے ہیں۔ آخر ہم ایران اور سعودی عرب کی اپنے ملکی معاملات میں مداخلت پہ کیوں اعتراض نہیں کرتے۔
اگر آپ یہ سمجھ کر خوش ہیں کہ میرا تعلق ابن سباءیوں سے ہے تو خیر ہے۔ لیکن آپکے اس طرز عمل کو مثبت نہیں کہا جا سکتا۔ دنیا اسی طرح مختلف نظریات رکھنے والے لوگوں سے بھری ہوئ ہے اور مہذب معاشروں میں اسے اسیے حل کیا جاتا ہے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔
یہ جان رکھیں کہ سنی مسلمانوں کو مضبوط کرنے کے لئے خدا دنیا سے تمام منافقین، مشرکین اور کفار کو ختم نہیں کریگا ایسا اس نے رسول پاک کے زمانے میں بھی نہیں کیا۔
ہم جو کہ صرف اور صرف ان سادہ مسلمانوں کو اس بلاگی دنیا میں چلائی جانے والی مہم سے آگاہ کرنے کرنے اور کبھی ان کی ریشہ دوانیوں پر دکھ محسوس کرکے اپنا مدعا بیان کر دیتے ہیں ، کوشش کرتے ہیں براہ راست کسی رافضی عورت سے مکالمہ نہ کریں، بس اپنے دامن کی بھی فکر رہتی ہے اور اس کے عورت ہونے کا پاس بھی
آج ایک صاحبہ نے مخاطب کیا ہے تو جواب عرض کر دیتے ہیں
نیٹ کی دنیا سامنے تو آپ نہیں مگر کسی سے پڑھا سنا تھا کہ آپ کی شیعہ گھرانے چشم بھی ہیں کہ بلاگ کی حد تک ہی آپ نے نظر رکھی ہوئی ہے کہ رنگے ہاتھوں جنت بنا لیں اور اپنا علم آگے بڑھائیں
اور کہنے والے نے کہا کہ چراغ بھی ہیں کہ اپنے سبائی نظریات کو پورے شدومد سے پھیلا رہی ہیں، روشنیوں کا گورکھ دھندا آپ کے مزہب میں خوب ملتا ہے اسی لیئے پامسٹری ، علم نجوم ٹائپ آپ ہی جنگلات خوب پائے جاتے ہیں، مگر معلوم نہیں ایسا کون سا چراغ ہوتا ہے جو ظلمت پھیلائے
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
ہم نے پہلے تبصرے میں جو بھی کہا ہوا میں نہیں کہا تھا کوئی بات غلط ہو تو بتائیں
دنیا کو دھوکا کیسا بی بی کہ افغانستان میں لوگوں کو شیعوں کے خلاف کیا گیا حالانکہ یہ تو پکے مسلمان تھے۔ یہ آج کی نہٰیں صدیوں کی بات ہے کہ شیعت کے کفر کو حتمی طور پر واضح کیا گیا آپ کسی بچے سے بات نہیں کر رہیں کہ ادھر ادھر کی ہانک کر لولی پاپ پکڑا دیں اور “مصروف “ مسلمان آپ کی بات کو برہان سمجھ کر اس پر ایمان لے آئیں۔ ہمارا کسی طور پر بھی مقصد نہیں کہ آپ کو یا کسی بھی رافضی کو یا قادیانی کو تبلیغ کریں یا ان کو بتائیں کہ آپ حضرات کون ہیں یہ لوگ خود اچھی طرح جانتے ہیں بلکہ “مصروف “ مسلمانوں سے زیادہ جانتے ہیں اور اپنے اپنے دائرہ عمل میں کمر بستہ رہتے ہیں
اب ان کو یہ ثبوت دینے ہونے بھی کیا لگا ہے؟ان سے پہلے بھی کہا تھا کہ لگے رہو۔ جہاں متعہ سے آپ لوگوں کو نبیوں سے افضل مرتبہ مل سکتا ہے تو ریشہ دوانیاں تو متعہ سے بھی مشکل کام ہیں
20 ٪ والی بات بھی خوب کہی
محلے سے نکل کر بات شہر تک جا پہنچی ہے
عورت کے حلق کی یارو گونج بڑی ہے
ایران کی اول وقت سے پاکستان پر رال ٹپک رہی ہے اور جنتے حقوق ان کو یہاں ہیں کیا اتنے مسلمانوں کو ایران میں ہیں؟ایران بلوچستان کو ہڑپ کرنے ترس رہا ہے ایسے دشمن کی ملک میں مداخلت کو اچھا سمجھا جایے گا؟مسلمانوں کے ملک میں تحریک نفاذ جعفریہ کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے؟کیا مسلمانوں کا کندھا استعمال کرکے یہ ملک شیعہ کیلیئے بنایا گیا تھا؟۔
رافضی ہر جگہ جو قبضہ کیئے ہوئے ہیں یہ سب مرہون منت ہے شیعہ میڈیا کا ۔اور ہاںآپ شکر گزار ہوں عبداللہ بن سبا اور حضرت مودودی کی کہ
یہ سب ان کا کرم ہے
ایک نے تقیہ جیسی چادر دی دوسرے نے بہترین کیموفلاج کردیا
ہاں آپکی بات ٹھیک ہےکہ اللہ پاک مرتدوں اور منافقوں کو ختم نہیں کرے گا سب اپنی اپنی موت ہی مریں گے
آپکی حسرتیں تو کافی ہونگی اگر پوری ہوگئیں تو مٹھائی آپکی
ورنہ اگلی نسل کو دجال کی مدد مل ہی رہی ہے
خیراندیش
انجینئر احمد
چلیں احمد ایک بات تو واضح ہوئ کہ آپ کیا سمجھتے ہیں۔ اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کتنا غلط سمجھتے ہیں۔ یہاں آپکی تصحیح کرنا ضروری ہے کہ میں کسی شیعہ گھرانے کی چشم و چراغ نہیں۔ چونکہ اسی نکتے پہ آپ اور آپکو علم دینے والے لوگوں کے اندازے گلط اور علم محدود ثابت ہوتا ہے تو اس سے آگے میں آپ سے کوئ بات کرنا بالکل سود مند نہیں سمجھتی۔
جو لوگ آپ جیسے خیالات نہیں رکھتے، انہیں شیعہ اور رافضی بنانے میں اس ملک میں لوگوں کو دیر نہیں لگتی۔ جس سے بہت زیادہ نفرت ہو جائے اسے قادیانی بنا دیا جاتا ہے۔ اور اسکے بعد بحی زور اپنے مسلمان ہونے پہ رہتا ہے۔
کبھی اطمینان سے بیٹھ کر سوچئیے گا کہ دجالوں کی مدد آپ جیسے لوگ کر رہے ہیں یا میرے جیسے رافضیلوگ۔
آپ اپنے کنوئیں بند اپنے آپ کو جانے کب تک اس دھوکے میں رکھیں گے کہ اس میں سے نظر انے والا آسمان ہی پورا آسمان ہے۔ جبکہ خدا نے دنیا بہت بڑی بنائ ہے۔ مجھے آپکی مٹھائ سے کوئ دلچسپی نہیں، میرے پاس کرنے کو زیادہ بہتر کام اور سوچنے کو زیادہ وسیع ذہن ہے۔
میری حسرتیں تو یہ ہیں کہ آپ جیسے لوگ ادھر ادھر سے سن کر اسے پھیلانے کے بجائے اپنے آپ کو علم کی روشنی سے بھی آراستہ کرنے کی کوشش کریں، لیکن یہ بھی جانتی ہوں کہ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔ اور یہ بھی جانتی ہوں کہ علم، عقل، سمجھ۔ ہدایت یہ سب بھی ہر ایک کی قسمت نہیں ہوتی۔ خدا جسے چاہے دے۔
یہ مت سوچئیے گا کہ مجھے آپکی بات پہ غصہ آیا۔ مجھے تو ہنسی آ رہی ہے۔ کتنی خالص پاکستانی بات کی آپ نے۔ مایوس نہیں کیا۔
مزید یہ کہ میرے عورت ہونے سے آپکو نہ ہمدردی ہونی چاہئیے نہ دکھ اور نہ پاس اور نہ ہی اسے میرے لئے حقارت کا باعث سمجھئیے گا۔۔ میں اسی معاشرے میں رہتی ہوں اور مردوں سے واقف بھی ہوں اور جانتی ہوں کہ وہ بھی میری ہی طرح کے انسان ہیں اور جب انسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے تو اس میں عورت بھی شامل ہوتی ہے اور جب انسان کی تخلیق جمے ہوئے خون کے لوتھڑے سے بتائ جاتی ہے تو اس طریقے سے مرد اور عورت دونوں پیدا ہوتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ میں انسانوں کی جنس کوخاطر میں نہیں لاتی اور آپ ابھی اسی مقام پہ کھڑے ہیں جہاں سے سفر شروع کیا تھا۔ خدا آپ پہ رحم کرے۔
اجمل صاحب ۔
آپکی بات میں وزن ہے، مگر جہاں تک میرا تجربہ رہاسوات اور اس کے قریب و جوار کے لوگ اپنا بدلہ نہیں بھولتے، اور یہ بھی اب بدلے کی جنگ ہے جس میں غیروں کے ہاتوں یہ استعمال ہورہے ہیں۔
احمد صاحب ۔
آپ تو کراچی میں کسی حکیم کو ڈھونڈ کر اپنا چیکپ کروائی، لاعلاج مرض کا آٹری علاج حکما کے پاس ہی ہوتا ہے ۔
عنیقہ پتر۔
اپنے علم اور دلائیل کے ساتھ ہمت باندھی رکھو، کچھ لوگوں کے پاس کھوپڑی نہیں ٹخنے ہوتے ہیں اس لیے ان کی باتوں کا برا نہیں مانتے۔
کریکشن ۔
چیکپ کروائیں ، آخری علاج
یہ تو معلوم تھا کہ مادہ رافضی اور کوئی چادر تو نہیں لیتی ہوگی مگر تقیہ سے بہتر پردہ کوئی نہیں جیسے ایران میں دکھانے کو چادریں مگر چہار سو متعہ ۔ یہود اب کبھی بھی عبداللہ بن سبا جیسا پیدا نہیں کر پائیں گے
انتظار تھا کب باقی ابن مجلسی سامنے آئیں گے تو لو جی ایک آگئے اپنی پتری کی مدد کو ۔ چوہدری صاحب زرا گوبر سے باہر نکل کر تازہ ہوا کھائیں انشاء اللہ افاقہ ہوگا
عتیقہ صاحبہ آپ کی یہی وہ عقل ہے جس پر آپ کے ڈیڈی آپ کو داد دے رہے ہیں؟ دیکھو وہ بھی ہماری بات کہ رہے ہیں کہ
لگے رہو !!۔
تو میرا پاکستان صاحب، جاوید صاحب اور اجمل صاحب اب بھی آپکو اندازہ نہیں ہوا کہ دہشت گرد کون ہے اور انکے دفاع سے کیا مراد ہے۔ ایک اچھے بھلے نجیب الطرفین سنی شخص کو شیعہ اور رافصی بنا کر اپنے مسلمان ہونے کا اتنی شدت سے حق ادا کرنے والے، شدت پسندی میں کہاں تک جانے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ میرے خیال میں اس بارے میں ضرور لکھئیے گا آپ لوگ۔ کون ہیں یہ لوگ۔ کہیں یہ بھی تو امریکن سازش نہیں۔
بیگم صاحبہ
آپ کے خیالات اور ایک شخص کے بلاگ پر کہیں پڑھا تھا آپ کے بارے میں ورنہ ہم کو کیا معلوم آپ کون ہیں
جس طرح آپ نے دلیل سے بات کرنے کی بجائے لولی پاپ پکڑانے کو بہتر جانا وہ بھی کسی بات کی چغلی کھا رہا ہے
لیکن اگر آپ صحیح العقیدہ مسلمان ہیں تو اس سے زیادہ خوشی کی کیا بات ہے ایمان سے بڑی دولت کوئی نہیں
اب آپ کی یہ بات مان لیتے ہیں اور انتظار کرتے ہیں تیل کا بھجیا سے نتھر جانے کا
اب بات ختم یا کچھھ اور فرمائیں گی؟۔
ہاں ایک ادھار آپ پر باقی رہے گا ہمارے دونوں تبصروں کا پر دلیل جواب۔ اگر مشکل ہو تو کوئی بات نہیں سب ہی جانتے ہیں
خیر اندیش اور مخلص
احمد عثمانی
ایک بات پر دلی مسرت ہوئی کہ آپ کو اپنے آپ کا شیعہ و رافضی کہلایا جانا برا لگا یعنی برائی کو کسی حد تک آپ نے برا جانا
اللہ مزید کی توفیق دے آمیں
آپ کی یہ بات اچھے تعلقات کا سبب بن سکتی ہے، اچھے برے کی تمیز کرنے والے اچھے دوست ہوتے ہیں
نہیں میں کسی بھی شدت پسند کے ساتھ اچھے تعلقات بنانے کی خواہش نہیں رکھتی۔ جب دین میں خدا نے زبردستی نہیں رکھی تو میں یا کسی اور کو بھی اس چیز کا حق نہیں کہ وہ دوسرے لوگوں پہ زبردستی کرے۔ آپ نے ایک غلط بات کہی اور آپ نے ایک پست زبان استعمال کی اگر آپ نے واقعتآ کسی شیعہ خاتون کے لئے بھی یہ زبان استعمال کی ہوتی تو میں اس پہ احتجاج کرتی چاہے کوئ نہ کرتا۔ میں نے اپنے سنی ہونے کی وضاحت آپکی کوتاہ ذہنی کو نشان زد کرنے کے لئے کی۔ ویسے ہر سنی سنائ بات پہ یقین کرنا اور اسے آگے بڑھانا جھوٹ بولنے کے مترادف ہے۔
مجھے اس سے کوئ غرض نہیں کہ آپ میری بات مانتے یا جھٹلاتے ہیں۔ میں اپنے ایمان کے لئے آپکو یا کسی اور کو بالکل جوابدہ نہیں۔
خود آپکو ان سوالوں کے جواب دینا چاہئیے کہ وہ لوگ جو آپ جیسے عقائد اور نظریات نہیں رکھتے مگر آپکی زمین پہ موجود ہیں ان کے ساتھ آپ کسطرح رہنا پسند کریں گے۔
پاکستان میں اسوقت مختلف فقہ پہ عمل کرنے والے مسلمان رہتے ہیں آپ کس شریعت کو یہاں نافذ کریں گے۔
آپ نے ایران کے متعلق تو ارشاد فرمایا اور مختلف مواقع پہ ایران کی پاکستان پالیسی بھی مشکوک رہی ہے۔ مگر سعودی عرب جیسے مقدس ملک کے بارے میں ارشاد نہیں فرمایا کہ وہ کیوں ہمارے معاملات میں مداخلت کرتے ہیں اور افغانستان کے جہاد میں انہوں نے کیوں انویسٹمنٹ کی،وہ کیوں ضیا الحق پہ اتنے مہربان تھے، انہیں کیوں نواز شریف کو بچانے کی ضرورت پیش آئ اور پھر انہوں نے کیوں پرویز مشرف کو مستعفی ہونے کے باوجود اپنے ملک میں پروٹوکول دیکر بلایا۔
تمام عرب ریاستوں نے اپنی عیاشیوں کے گڑھ قائم کرنے کے بعد جہاد جیسے فریضے کی ذمہداری صرف پاکستانیوں اور افغانیوں پہ کیوں ڈال دی ہے۔
پاکستان نے انیس سو اناسی سے افغانستان کی جنگ میں گھس کر اپنے آپکو تباہ کر ڈالا۔ آپکے پکے مسلمان افغان بھائیوں نے اس عرصے میں آپکو اسلحہ اور ہیروئین جیسے تحفوں سے نوازا اور اب بھی وہ آپکے وفادار نہیں۔ اس بارے میں آپکا کیا خیال ہے۔
احمد صاحب ۔
گوبر تے کافی کام دی چیز ہے لیکن کھوتے دی لید نو کوئی ہاتھ لانا بھی پسند نہیں کرتا ہے ۔ ویسے تسی ہو بڑے ٹھرکی، لگتا ہے متعہ کے دلداہ ہو، جب ہی ہر تحریر میں مادہ اور متعہ کا تذکرہ ضرور کرتے ہو۔
انا للہ و انا الیہ راجعون ۔۔۔۔۔ احمد صاحب اور آخر میں چودھری صاحب کی گفتگو سن کر اندازہ ہو گیا کہ “آداب محفل” کتنی اہم اور ضروری چیز ہوتے ہیں ساتھ ہی اخلاق سے گری ہوئی بات آپ کی دلیل کو کس قدر کمزور کر دیتی ہے، اور فریق مخالف کو کتنی تقویت پہنچاتی ہے۔
Leave A Reply