رمضان کی آمد آمد ہے اور ایک بار پھر مسلمان اس تفرقے کا شکار ہوجائیں گے کہ رمضان کب شروع کریں اور عید کب کریں۔ عرصہ ہوا دنیا کو اتنی ترقی کۓ ہوۓ کہ چاند کے گھٹنے بڑھنے کا اندازہ پہلے سے ہی لگایا جانے لگا مگر مسلمان ہیں کہ اس ٹیکنالوجی سے انکاری ہیں اور وہ اپنی آنکھوں سے ہی چاند دیکھ کر رمضان شروع کرنے پر بضد ہیں۔

ہمارا میڈیا اگر راۓ عامہ ہموار کرنے کیلۓ حدود آرڈینینس پر مہینوں اشتہار دکھا سکتا ہے تو پھر چاند کو تکنیکی بنیادوں پر دیکھنے کو کیوں زیرِ بحث نہیں لاتا۔ وہ شائد اسلۓ کہ میڈیا این جی اوز کی امداد پر انحصار کۓ ہوۓ ہے اور این جی اوز نہیں چاہتیں کہ مسلمانوں میں کوئی اتحاد کی صورت نکلے۔ حکومت کو بھی چاہۓ کہ وہ عُلما اور عام مسلمانوں کو اس بات پر قائل کرے کہ جدید ٹیکنالوجی اب اس قابل ہے کہ چاند کا کیلنڈر بنانے میں اس کی مدد لی جاسکتی ہے۔ ایک اور دلیل یہ بھی ہے کہ ہم نمازوں کے اوقات تو سورج کو دیکھ کر معین نہیں کرتے بلکہ کیلنڈر اور گھڑیوں کی مدد سے پہلے ہی اوقات مقرر کرلیتے ہیں اور پھر ہمیشہ کیلۓ ان پر عمل کرتے ہیں۔ اگر ہم جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے سورج کے طلوع و غروب کے اوقات مقرر کرسکتے ہیں تو پھر چاند کے کیوں نہیں؟

امریکن نیوی کی سائٹ سے آپ سن ۱۷۰۰ سے لیکر سن ۲۰۳۵ کا چاند کا کیلنڈر دیکھ سکتے ہیں۔

ہم اس سائٹ کا کافی عرصے سے جائزہ لے رہے ہیں اور ہم نے یہی دیکھا ہے کہ ہر دفعہ چاند آنکھوں سے دیکھنے کا فرق صرف ایک دن  سے زیادہ نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ ہمارے مسلمان سائینسدان اپنی تحقیق سے اس کیلنڈر کے صحیح یا غلط ہونے کی تائیدبھی کرسکتے ہیں۔

اسی طرح حدود آرڈینینس پر مہینوں سے بحث چل رہی ہے اور ہر کوئی چار گواہوں پر زور دے رہا ہے مگر یہ سوچنے کی کسی میں جرأت نہیں ہے کہ اب ڈی این اے کی ٹیکنالوجی فول پروف ہے اور اس کو ہم چار گواہوں کے برابر درجہ دے سکتے ہیں۔ یہ عُلما ہی جانتے ہیں کہ چار گواہوں کے پیچھے کیا منتق تھی مگر ہماری نظر میں فی زمانہ زنا بالجبر یا زنا بالرضا دونوں ہی کیلۓ چار گواہوں کو لانا جوۓ شیر لانے کے برابر ہے ۔  شائد یہی وجہ ہے کہ اس جرم کی سزا بہت کڑی رکھی گئ ہے اور اس کی گواہی بھی سخت ۔ ہمارے عُلما کو چاہۓ کہ وہ پہلے جدید ٹیکنالوجی کی تعلیم حاصل کریں اور پھر اجتہاد کو استعمال میں لا کر اسلامی قوانین کو جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے فعال بنائیں تاکہ مسلمانوں کو انصاف دلانے میں آسانی پیدا ہوسکے۔

ہم نے اب تک جہاں ذاتی ضرورت پڑی ہے اجتہاد کرتے ہوۓ بہت ساری جدید ٹینکنالوجی کو اسلام کے پرانے اصولوں کے برخلاف اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا ہوا ہے۔ مثلأ تصویر والا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ اور ٹی وی اور کمپیوٹر کا استعمال۔ کمپیوٹر تو اسلام کو پھیلانے ميں ایک اہم رول ادا کرسکتا ہے اور اس سے فائدہ اٹھانا عصرِ حاضر کی اشد ضرورت ہے ہاں اس پر فحاشی کو روکنے کیلۓ انتظامات کۓ جاسکتے ہیں۔ یہ ایک مستند حدیث ہے کہ جس گھر میں کتا یا تصویر ہوتی ہے اس گھر میں رحمت کا فرشتہ نہیں آتا مگر اب گھر گھر میں ساکت اور چلتی پھرتی تصویریں ہیں بلکہ عُلما خود ٹی وی سے استفادہ حاصل کر رہے ہیں اور دوسروں کو منع بھی نہیں فرما رہے۔

اسلۓ مسلمانوں کو اس وقت جدید ٹیکنالوجی سے استفادے کی شدید ضرورت ہے اور اس ٹیکنالوجی کو جائز طریقوں سے استعمال میں لاکر ہم مغرب کا الزام بھی غلط ثابت کرسکتےہیں کہ اسلام ایک دقیانوسی مزہب ہے جو جیدیدیت سے خائف ہے۔

آئیں ہم سب اس پر غور کریں اور یہ پیغام ہر مسلمان تک پہنچائیں کہ جدید ٹیکنالوجی اسلام کے اصولوں سے متصادم نہیں ہے بلکہ اجتہاد کو استعمال کرکے ہم اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔