عالمي مارکيٹ ميں پٹرول کي قيمتيں 75 ڈالر بيرل سے کم ہوکر 60 ڈالر بيرل تک آچکي ہيں اور ہماري حکومت نے پٹرول کي قميتيں پھر کم کرنے سے انکار کردياہے۔ کتنے بےايمان اور فراڈيۓ لوگ رمضان کي برکتوں کي وجہ سے وقتي طور پر اپنے دھندوں کو خيرباد کہ ديتے ہيں مگر ايک ہماري حکومت ہے کہ رممضان کے مہينے ميں بھي منافع خوري سے باز نہيں آرہي۔ خدا کے بندو اگر عالمي مارکيٹ ميں تيل کي قيمتيں بڑھنے پر پاکستان ميں قيمتيں بڑھاتے ہو تو جب قيمتيں کم ہوتي ہيں تو پھر تم بھي کم کرديا کرو۔

امريکہ ميں پچھلے مہينے عام پٹرول تين ڈالرفي گيلن تک پہنچ گيا تھا اور عالمي مارکيٹ ميں قيمتيں کم ہونے کے بعداب پٹرول دو ڈالر في گيلن فروخت ہورہا ہے۔ ليکن ہم پہلے بھي پٹرول 57 روپے في ليٹر پر بيچ رہے تھے اور اب بھي اسي قيمت پر بيچ رہے ہيں۔ پتہ نہيں منافع کس کي جيب ميںجارہا ہے اور کون مال بنا رہا ہے۔ ہمارے خيال ميں سب سے زيادہ منافع تو تيل کي کمپنياں کما رہي ہيں اور ہوسکتا ہے اسي کيساتھ حکومت بھي اپنا حصہ وصول کررہي ہو۔ ليکن ظاہر ہے حکومت کا منافع تيل کمپنيوں کے مقابلے ميں آٹے ميں نمک کے برابر ہوگا۔ يعني حکومت دوچار پيسوں کي خاطر عوام کا خون اتنے سستے داموں بيچتے ہوۓ رمضان ميں بھي خوف نہيں کھا رہي۔

اس مہنگائي پر نہ حزبِ اختلاف کوئي احتجاج کرنے کا پروگرام بنا رہي ہے اور نہ ہي عوام کوئي قدم اٹھا رہے ہيں۔ پچھلے چھ سالوں ميں عوام جس چين سے ہر تکليف برداشت کررہے ہيں اس کي مثال پہلے کہيں نہيں ملتي۔ اللہ جانے کس نے لوگوں ميں ايسي بے حسي پيدا کردي ہے کہ اتني مہنگائي کے باوجود ہرطرف چين ہي چين ہے اور حکومت مزے کر رہي ہے۔