مشرقی پاکستان کو ہم سے الگ ہوئے اڑتیس سال ہو گئے اور ہمارے عوام اور حکمرانوں کی بے حسی کی انتہا دیکھیں کہ کسی نے اس دن نہ سوگ منایا اور نہ اپنی غلطیوں پر ماتم کیا۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم سولہ دسمبر والے دن کو عبرت کے طور پر مناتے اور اس طرح کی تدابیر کرتے کہ ایسا حادثہ دوبارہ وقوع پذیر نہ ہو۔
اس دن ہم بنگلہ دیش کے لوگوں کو خیرسگالی کے پیغامات بھیجتے اور انہیں دوبارھ اپنےقریب لانے کی کوشش کرتے۔
حکمران حمودالرحمن کمیشن کی فائل کو کھولتے اور اس میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی وجوہات پر غور کرتے۔
بنگلہ دیش میں پھنسے ہوئے بہاریوں کو واپس لانے کی تدبیر کرتے اور ان کی حوصلہ افزائی کیلیے انہیں تحائف بھیجتے۔
لیکن ہم بے حس ہو چکے ہیں ہمارے پڑوس میں کوئی مر جائے ہمیں اس کی اب اطلاع نہیں ہوتی۔
ہمیں اپنے بہن بھائیوں کی فکر نہیں رہی کیونکہ ہم خودغرض ہو چکے ہیں۔
بڑے سے بڑا سانحہ گزر جائے ہم اگلے دن پھر اپنے معمولات زندگی میں کھو جاتے ہیں۔
کاش جس طرح مشرقی اور مغربی جرمنی دوبارہ ایک ہو گئے اسی طرح مشرقی اور مغربی پاکستان بھی دوبارہ ایک ہو سکتے۔
ہم دوبارہ ایک ہو سکتے ہیں اگر دونوں ایک دوسرے کیلیے قربانی ديں اور خودغرضی کے خول سے باہر نکل آئیں۔
لیکن یہ خواہش مستقبل قریب میں پوری ہوتی نظر نہیں آتی۔
9 users commented in " آہ مشرقی پاکستان "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackہم نے اپنی پچھلی غلطیوں سے سیکھنے اور سابقہ نقصانات سے عبرت حاصل کرنا ہی چھوڑدیا ہے۔
اس کاش کا کچھ بھی نہیں بننے والا۔ نیز جو مغربی پاکستان بچا ہے۔ اللہ نا کرے کہ اسکے بھی ٹکڑے ہو جائیں۔
آج تو پاکستان میں این آر او نامی فلم چل رہی ہے۔ اور پوری قوم دیکھ رہی ہے ۔ کسی نے آج سوگ نہیں منایا اور نہ اپنی غلطیوں پر ماتم کیا۔
بھائی بنگلہ دیش اب ایک حقیقت ہے سو مغربی و مشرقی کو ایک کرنا تو ایک رومانوی سا تصور ہے۔ ہاں یہ کوشش ضرور ہونا چاہئے کہ پاکستان کے عوام کو ان کا جائز حق ملے کہ اسی میں قوم کی فلاح ہے۔
جوبچا ہے اسی کو سنبھال لیں تو غنیمت ہے۔
سلام پاکستان جی
ھم گزرے ھوئے وقت کو روتے ھیں مگر اس سے کوئ سبق حاصل نہیں کرتے ماضی میں کی ھوئ غلطیاں دھراتے رھتے ھیں کیا فائدہ جب ماضی سے کوئ سبق حاصل نہیں کرتے نہ اپنا حال بہتر بنانے کا سوچتے ھیں نہ مستقبل نہ یہ سوچتے ھیں ماضی میں جو دکھ ملے تھے وہ ھماری آنے والی نسلوں کو نہ ملیں پہلے میں مشرقی پاکستان ھی کہتی تھی بنگلادیش نہیں مگر اب جو پاکستان کے حالات ھیں ایسے میں یہ چار صوبے مل کے رھیں وہی بہت ھے
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=395363
14/ اگست 1947ء کو دو قومی نظریئے کی بنیاد پر وجود میں آنے والی دنیا کی واحد اسلامی مملکت کو 25سال بعد 16دسمبر 1971ء کودو لخت کر دیا گیا۔بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے پارلیمنٹ میں فخر سے اعلان کیا کہ دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق کر دیا گیا ہے۔ حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ میں سقوط ڈھاکہ کے ذمہ داروں کا تعین کیا گیا لیکن کسی کے خلاف کارروائی عمل میں نہ لائی گئی۔رپورٹ کو کلاسیفائڈ کرکے اس کی اشاعت پر پابندی لگا دی گئی۔ 25سال بعد اگست 2000ء میں حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ کے بعض حصے بھارتی انگریزی میگزین انڈیا ٹو ڈے کو افشاء کئے گئے۔ چار ماہ بعد پرویز مشرف نے دسمبر 2000ء کو رپورٹ ڈی کلاسیفائیڈ کر دی۔ رپورٹ میں سوال کیا گیا ہے کہ جنرل نیازی نے شکست تسلیم کرنے کے بعد بھارتی جنرل اروڑہ کا ایئر پورٹ پر استقبال کیا اور اسے گارڈ آف آنر کیوں پیش کیا۔
پاکستان ٹوٹنے کے سرسری اسباب کا جائزہ لیا جانا چاہئے۔16/اکتوبر 1951ء کو وزیر اعظم لیاقت علی خان کو قتل کیا گیاجس کے بعد ملک عدمِ استحکام کا شکار ہوا تو فوجی و سول بیورو کریسی نے ملک کے سیاسی معامالات میں مداخلت شروع کر دی۔ قانون ساز اسمبلی بالکل غیر موثر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ایک عشرہ تک ملک بے آئین رہا، لیاقت علی خان کی جگہ بنگالی گورنر جنرل خواجہ نظام الدین وزیر اعظم بنے تو پنجابی سول سروس کے غلام محمد کوگورنر جنرل بنایا گیا۔ 1953ء میں گورنر جنرل نے بنگالی وزیراعظم کو برطرف کرکے پنجاب میں مارشل لاء نافذکیا تو مشرقی پاکستان میں گورنر راج لگا دیا گیا۔ ایک بنگالی گورنر جنرل کو پنجابی وزیر اعظم کی جانب سے برطرف کرنے کا مسئلہ دشمنوں کے لئے اتنا معمولی نہ تھا بلکہ پاکستان کے خلاف زبان کو منافرت کے لئے استعمال کرنے کی جڑیں اس مسئلے نے اورمضبوط کیں۔1954ء میں غلام محمد نے اپنی کابینہ تشکیل دی تو ایک بنگالی محمد علی بوگرہ کو وزیر اعظم نامزد کیا ۔ محمد علی بوگرہ امریکہ اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر رہ چکے تھے۔اس طرح اس نامزدگی میں امریکہ کا ہاتھ صاف نظر آنے لگا۔امریکہ نے پاکستانی معاملات میں مداخلت بھی شروع کر دی۔ اس دوران مشرقی پاکستان کے انتخابات میں مسلم لیگ کو بنگالی جماعتوں کے اتحاد یونائٹیڈ فرنٹ نے بدترین شکست دی۔ اتحاد کا 21 نکاتی ایجنڈا تھا جس نے مغربی پاکستان کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کی بھرپور کوششیں کی۔ حسین شہید سہروردی کی عوامی لیگ اور فضل الحق کی کرشک سرامک پارٹی نے نمایاں کردار ادا کیا۔ یہ لوگ صوبائی خود مختاری چاہتے تھے۔ وزیر اعظم بوگرہ نے گورنر جنرل غلام محمد کے اختیارات کم کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے فوج اور بیوروکریسی کی حمایت سے اسمبلی کو ہی ختم کر دیا اور نئی کابینہ تشکیل دے دی۔ بوگرہ وزیراعظم بنے لیکن بے اختیارتھے ۔فوجی اور بیورو کریٹ جنرل اسکندر مرزا کو وزیر داخلہ بنایا گیا۔ آرمی کمانڈر جنرل ایوب خان وزیر دفاع اور سابق چیف سیکرٹری چوہدری محمد علی وزیر خزانہ بنائے گئے۔ 1956ء میں مغربی پاکستان کے چار صوبوں کو ایک انتظامی یونٹ قرار دیا گیا۔1966ء میں شیخ مجیب الرحمن نے اپنے 6 نکاتی پروگرام کا اعلان کیا۔ (1) حکومت وفاقی اور پارلیمانی ہو، آبادی کی بنیاد پر ارکان منتخب کئے جائیں۔(2) مقامی حکومت خارجہ معاملات اور دفاع کے لئے اصولی طور پر ذمہ دار ہو۔(3) ہر وِنگ کی اپنی کرنسی اور اکاؤنٹ ہوں۔ (4) صوبائی سطح پر ٹیکس جمع کئے جائیں۔ (5) ہر وفاقی یونٹ کا فارن ایکسچینج آمدن پر کنٹرول ہو۔(6) ہر یونٹ اپنی فوج اور نیم فوجی بھرتی کرنے کا مجاز ہو۔شیخ مجیب کا 6نکاتی پروگرام ایوب خان کے گریٹر نیشنل انٹگریشن(National Integration) سے متصادم تھا۔ اس لئے 1968ء میں مجیب کو حراست میں لے لیا گیا۔
25 مارچ 1969ء کو ایوب خان نے مسندِ اقتدار آغا یحییٰ خان کو دے دیا۔ یحییٰ خان نے انتخابات کرائے۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے 298 ، آزاد نے 2 اور دیگر نے 5 سیٹیں لیں۔ پیپلزپارٹی کو ایک سیٹ بھی نہ ملی۔ اس طرح قومی اسمبلی کے انتخابات میں عوامی لیگ نے 167، پیپلزپارٹی نے 88سیٹیں حاصل کیں۔ صوبائی الیکشن میں عوامی لیگ نے مغربی پاکستان میں ایک بھی سیٹ نہیں لی اور پیپلزپارٹی کی مشرقی پاکستان میں کارکردگی زیرو رہی۔عوامی لیگ اور پیپلزپارٹی نے ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام نہ کیا۔ انتخابات کے نتائج کے مطابق حکومت عوامی لیگ نے بنانی تھی اور مجیب الرحمن کو ملک کا وزیر اعظم منتخب ہونا تھا لیکن پارلیمنٹ کا اجلاس کبھی نہ بلایا گیا۔جنرل یحییٰ خان اور اس کے صلاح کاروں نے انتہائی مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا اور بنگالیوں کو اقتدار سے دور رکھا ۔شیخ مجیب الرحمن نے ایک اجلاس بلا کر الیکشن میں منتخب ہونے والے صوبائی اور قومی اسمبلی کے ارکان سے حلف لیا۔ جنہوں نے ان کے 6 نکاتی پروگرام کی حمایت کی اور صوبائی خود مختاری کا مطالبہ کیا لیکن مغربی پاکستان کی جماعتوں نے اس مطالبے کو مسترد کر دیا جو ایک انتہائی افسوسناک بات تھی۔جنوری 1971ء کو یحییٰ خان ڈھاکہ گئے۔ انہوں نے مجیب کے ساتھ میٹنگ کی۔ یحییٰ خان نے واپسی پر لاڑکانہ میں ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کی جس کے فوری بعد بھٹو نے ڈھاکہ کا دورہ کیا اور شیخ مجیب سے ملاقات کی تاہم انہوں نے واپسی پر اپنے مشن کو ناکام قرار دیا اور راولپنڈی میں جنرل یحییٰ سے ملاقات کی۔ یحییٰ نے اسمبلی اجلاس 3 مارچ 1971ء کو طلب کر لیا۔بھٹو نے اس اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔یکم مارچ کو یحییٰ خان نے طلب کردہ اجلاس ملتوی کر دیا۔ مشرقی پاکستان میں اجلاس ملتوی کرنے پر شدید ردعمل ہوا جس پر فوج طلب کی گئی۔ اُس روز یحییٰ خان نے جنرل ٹکا خان کو مشرقی پاکستان کا گورنربنا دیا۔ شیخ مجیب نے نافرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان کیا تو جنرل یحییٰ نے ڈھاکہ پہنچ کر شیخ مجیب سے ملاقات کی۔ ملاقات میں شیخ مجیب نے تین مطالبات پیش کئے۔(1) مارشل لاء ختم کریں (2) قومی اسمبلی کو کام کرنے دیا جائے (3) قومی اور صوبائی سطح پر اقتدار منتقل کیا جائے لیکن ان مطالبات کو ایک بار پھر نظر انداز کیا گیا۔ردعمل میں شیخ مجیب نے یوم جمہوریہ کے دن مشرقی پاکستان میں بنگلہ دیش کا پرچم لہرادیا۔ مارچ 1971ء کو ڈھاکہ میں فوجی آپریشن شروع کر دیا گیا۔ یہی موقع تھا جب بھارت نے حالات کا فائدہ اٹھایا۔ بھارت نے مغربی پاکستان کے خلاف مسلح بغاوت کے لئے بنگالیوں کی تربیت شروع کر دی۔مکتی باہنی کا ظہور ہوا۔ جگہ جگہ ٹریننگ سینٹرز کھل گئے۔ ایک اندازے کے مطابق ابتدائی طور پر 50 ہزار گوریلا تیار کرکے مشرقی پاکستان میں داخل کئے گئے جنہوں نے پاک فوج پر حملے شروع کر دیئے۔ایسٹرن کمانڈ کے کمانڈنگ آفیسر جنرل نیازی کو 9 بڑے نکات پر عمل کرنے کے لئے کہا گیا۔(1) مشرقی پاکستان میں حکومتی رِٹ بحال کرنا (2) انسرجنسی کے خلاف جنگ (3) جغرافیہ کی حفاظت (4) سرحدوں کی بندش (5) محب وطن شہریوں کی حفاظت (6) مواصلاتی رابطے (7) بیرونی حملے سے تحفظ (8) شہری علاقوں میں فوج کی موجودگی (9) دشمن فورسز کو مشرقی پاکستان میں مصروف رکھنا۔ لیکن جب اکتوبر 1971ء سے بنگلہ دیش میں بھارتی مداخلت میں اضافہ ہو گیا تو جنرل نیازی اس سے نمٹنے کے لئے کوئی بھی کردار ادا نہ کر سکے۔ نومبر 1971ء کو بھارتی فوج نے چٹا گانگ کی طرف پیش قدمی شروع کرتے ہوئے سلہٹ سیکٹر کے اٹگرام اور ذکی گنج پر قبضہ کر لیا گیا۔جنرل نیازی نے 16دسمبر 1971ء کو ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں سرنڈر کرلیا۔ آغا شاہی اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے تھے۔ انہیں بھارتی سرکار اور مکتی باہنی کی دہشت گردی کو بے نقاب کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔دوسری طرف یحییٰ خان نے عوامی لیگ کے ساتھ سیاسی مذاکرات کا آپشن بند کر دیا۔ڈھاکہ میں سرنڈر کی دستاویز پر بھارت کی طرف سے لیفٹننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ اور پاکستان کی طرف سے لیفٹننٹ جنرل عبداللہ خان نیازی نے دستخط کئے۔ آج بھی عوام بے اختیار ہیں۔ غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہو رہا ہے۔ قومی ایشوز پر سودا بازیاں ہوتی ہیں۔خارجہ اور داخلہ پالیسیاں امریکہ ،عالمی بنک اور آئی ایم ایف کی ہدایت پر تشکیل پاتی ہیں۔ مسئلہ کشمیر سے پسپائی اختیار کی جارہی ہے۔سقوط ڈھاکہ کے بعد کشمیر کا سودا کیا گیا۔ بھارت کے ساتھ شملہ معاہدہ ہوا۔ کشمیر کو عالمی مسئلے سے دوطرفہ مسئلہ بنا دیا گیا۔ پاکستان ٹوٹنے کا سب سے زیادہ نقصان کشمیر کاز کو پہنچا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تاریخ سے کسی نے کوئی سبق نہیں سیکھا ورنہ بنگالیوں سے فری ٹریڈ اور دفاعی معاہدے کئے جاتے اور غلطیوں کی تلافی کی جاتی کیوں کہ بنگالی قوم نے مشرقی پاکستان کو ہڑپ کرنے کے بھارتی عزائم کو خاک میں ملا کر رکھ دیا تھا۔بھارت آج بھی پاکستان کی طرح بنگلہ دیش میں انارکی پھیلانے اور پانی روکنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔پاکستان اور بنگلہ دیش کو مل کر لائحہ عمل اختیار کرنا چاہئے۔
پاکستان کیوں ٹوٹا؟,,,, غلام اللہ کیانی
روزنامہ جنگ جمعرات 17 دسمبر 2009
jamaat islami ka kirdar
http://img3.imageshack.us/img3/8878/b8c9609532.jpg
Leave A Reply