آج تک ہمارے جتنے بھی بڑے بڑے رہنما اور حکمران گزرے ہیں ان میں سے شاید ہی کسی کو توفیق ہوئی ہو کہ وہ قومی رازوں سے پردہ اٹھا سکے۔ قائد اعظم سے لیکر جنرل بشرف تک سب کو موقع ملا مگر کسی نے بھی اپنے دل کی بات قوم کو نہیں بتائی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ چلیں زندگی میں نہ سہی مگر مرتے وقت وصیت کر جاتے کہ ان کی خودنوشت شائع کر دی جاتی اور اس طرح بہت سارے زندہ پردہ نشینوں کے کرتوت قوم دیکھ لیتی۔ جنرل ضیاع کو چھوڑ کر باقی تمام حکمران اپنی طبعی موت مرے اور ان کے پاس وقت تھا کہ وہ اپنی آپ بیتی لکھ سکتے مگر کسی نے قوم کی خاطر غداروں اور قوم دشمن زندہ لیڈروں کو سب کے سامنے ننگا نہیں کیا۔
جس کسی نے سوانح عمری لکھی بھی تو اپنا سیاسی قد اونچا کرنے کیلیے یا ذاتی فائدہ اٹھانے کیلیے۔ اس کی سوانح عمری میں وہ نہیں تھا جو ملک کے گلی کوچوں میں سب کی زبان پر ہوتا تھا۔
جنرل ایوب اگر چاہتے تو وہ معاہدہ تاشقند کی اندرونی کہانی بیان کر سکتے تھے۔ انہوں نے جس طرح فاطمہ جناح کو شکست دی وہ بتا سکتے تھے۔
جنرل یحی اگر چاہتا تو وہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی سازش میں شامل کئی چہروں کو بے نقاب کر سکتا تھا۔ اور کچھ نہیں تو وہ اپنی شراب و کباب کی محفلوں کی داستان رقم کر سکتا تھا۔
بھٹو کے پاس موقع تھا وہ قید میں اپنی خودنوشت بہتر طریقے سے لکھ سکتے تھے جس میں ان کی پوری زندگی کی جدوجہد رقم ہوتی۔ وہ انڈیا کیساتھ کئے گئے معاہدوں کی اندرونی کہانی بیان کر سکتے تھے۔ وہ بتا سکتے تھے کہ انہوں نے اقوام متحدہ کا ڈرامہ کیسے رچایا۔ قیدیوں کی واپسی کے بدلے بھارت کو کیا دیا۔ اپنی حکومت کیلیے ملک کے دو ٹکڑے کرنا کیسے قبول کیا۔
غلام اسحاق خان ہماری معاشی تاریخ میں ایک اہم کردار ہیں۔ انہوں نے بھی یہ بتانے کی تکلیف گوارہ نہ کی کہ وہ کیسے آئی ایم ایف کے کہنے پر قومی بجٹ بناتے رہے۔ انہوں نے کیسے نواز شریف کی حکومت کو برطرف کیا اور بینظیر نے ان سے وعدہ خلافی کیوں کی۔
جنرل بشرف کے پاس اب بھی موقع ہے وہ اپنی سوانح عمری ابھی سے لکھنا شروع کر دیں۔ وہ اس مواد کو تب تک راز رکھیں جب تک انگلینڈ میں جلاوطنی گزاریں مگر مرنے کے بعد وہ اسے شائع کرنے کی وصیت کر سکتے ہیں۔ ان کی سوانح عمری پڑھنے کے لائق ہو گی جس میں وہ بتا سکتے ہیں کہ کس طرح انہوں نوازشریف کیساتھ ڈیل کی، کس طرح دہشت گردی کی جنگ میں کردار ادا کیا، کس طرح بینظیر کیساتھ معاہدہ ہوا، این آر او کے پیچھے کونسی طاقت تھی، بینظیر کو کس نے مروایا، شوکت عزیز نے ملکی معیشت کا کیسے بیڑہ غرق کیا، چیف جسٹس سے محاذ آرائی کیوں کی، لال مسجد پر چڑھائی کیوں کی۔
مگر لگتا ہے ہماری بہت ساری حسرتوں کی طرح یہ خواہش بھی حسرت ہی رہے گی۔ کیونکہ کوئی جان بوجھ کر اپنے پاؤں پر کلہاڑی تھوڑی ہی مارے گا اور وہ بھی ملک و قوم کی خاطر۔
12 users commented in " میت کیساتھ راز بھی دفن "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackآپ بھی بڑے بھولے بادشاہ ہو، شاید یہ لفظ میں آپ کے لیے پہلے بھی کئی بار استعمال کرچکاہوں۔ اب آپ کو اپنے بشرف اور ہمارے مشرف سے کچھ مزید نکلوانا ہے تو بھا جی فوجیوں سی ٹیڑھی انگلی سے کیا کبھی کچھ نکلوایا جاسکا ہے۔
تسی بھی بڑے بھولے بادشاہ ہو، فوجی فوجی ہوتا چاہے کدھر کا ہو مطبل کیسی بھی نسل کا، اور یہی پاکستانی فوجی کی خوبی ہے، مانو یا مانو۔
رہی جہاں تک رازوں کی بات تو کس کو نہیں معلوم کہ یہ ایوان بالا میں سینہ بہ سینہ منتقل ہورہے ہیں اب یہ اور بات ہے کہ ہمارا اور آپ کا نہ اس ایوان سے کوئی رابطہ ہے اور نہ ہی تعلق اس لیےان پردے کی باتوں کو پردے میں ہی رہنے دو ۔
ویسے اس طرح کی کوئی تقلید نہ تو دنیا کی سب سے بڑی جمھوریت میں ملتی ہے اور نہ ہی دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے حکمرانوں میں۔
یار کیا پاکستانی عوام اپنے بکھیڑوں میں گم ہے۔ ایکس امریکی سی آئی اے، ایف بی آئی اور نہ جانے کیا کیا اے بی سی آفیسیرز پوری دنیا کیساتھ ہونے والی عالمی سازشوں پر اثبوتوں کیساتھ کتب خانے بھر چکے ہیں۔ مگر نہ کسی آنکھ نے سنا اور نہ کسی کان نے دیکھا والا واقعہ رونما ہوا ہے۔ دنیا اپنے آپ میں مگن ہے۔ اسلئے آپ بھی ایسا ہی کریں۔ بعض حسرتیں، حسرتیں ہی رہیں تو بہتر ہے!
ہمارے ہاں تو لوگ حکمت کے نسخے سینوں میں لے کر مر جاتے ہیں اپنے کرتوتوں کی داستان کوئی کیوں سنائے گا۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ہم اب تک میر جعفر اور میر صادق کو ہی روتے رہتے ہیں گو کہ آج کے اعلٰی نسب حکمرانوں کے آگے یہ دونوں کردار تو قابلِ ذکر بھی نہیں ہیں۔
آپ کی شکائت درست ہے ۔ ليکن جو کبھی کبھار لکھا گیا وہ کہاں ہے ؟ مثال کے طور پر
قائد اعظم کے چند خطوط اور تقاریر موجود نہیں اور چند ایک میں رد و بدل کیا گیا
حمودالرحمٰن کمیشن رپورٹ میں سے بھٹو کےمتعلق سب کاروائی بھٹو نے ضائع کر دی
ڈھاکہ کی شکست کے وقت سیّد خالد محمود جو ڈھاکہ کے کمشنر تھے اُنہوں نے تمام واقعات ایک کتاب کی صورت میں لکھ کر مسؤدہ بھٹو کو دیا اور مسؤدہ ہمیشہ کیلئے غائب ہو گیا
یہ حقائق تو میرے علم میں ہیں کچھ اور بھی ہوں گے
دل نہ چھوٹا کریں جی،جنرل نہ سہی رؤف کلاسرہ دل کی بات قوم کو بتائے دے رہے ہیں جب تک کسی جنرل کی کتاب نہیں آتی تب تک ان کے کالم سے کا چلالیں!
http://ejang.jang.com.pk/1-14-2010/pic.asp?picname=07_05.gif
اندرونی کہانی جب سامنے آتی ہے جب حمکرانوں کے ظمیرزندہ ہوں۔ ہما رے ہاں ” ظمیر” کی کمی ہے
ہمارے ہاں ہر چیز کی کمی ہے صرف ضمیر بے چارے کو کیوں رگڑا جاتا ہے
اگر کوئی کتاب آ بھی گئی تو کیا فرق پڑے گا۔ جیالوں نے پی پی کو ہی ووٹ دینا ہے، متوالوں نے نواز شریف اور بھائی کے چاہنے والوں نے بھائی کو چاہے وہ خود بھی اپنے جرائم کا اقرار کرلیں۔ ہم توحید پرست لوگ ہیں۔ جسے ایک دفعہ دل میں بٹھا لیا سو بٹھا لیا اب وہ سیاہ کرے یا سفید ہم اسے دل سے نہیں نکالیں گے۔
سلام پاکستان جی
کچھ سوال ھمیشہ سوال ھی رھتے ھیں ان کا جواب کبھی سامنےنہیں
آتا – سچ تب سامنے آئے گا جب کوئ سچا ھوگا — لگتا ھے یہ راز راز ھی رھینگے
سلام خرم – بہت زبردست بات کہی واقعی ھی ھم توحید کے قائل ھیں
جسے اپنا کہہ دیا ساری عمر اس کے کاموں پہ پردہ ڈالتے رھتے ھیں
خرم الزامات کے ثوت لادیجیئے پھر دیکھیئے کہ ہم آپ لوگوں سے مختلف نہ نکلیں تو کہنا!:)
ویسے آپ تمام لوگوں کے لیئے خوشخبری ہے!
http://ejang.jang.com.pk/1-14-2010/pic.asp?picname=16_04.gif
اب آپ لوگ مٹھائی بانٹیں کہ ایک دہشتگرد پارٹی کابد اخلاق اور بدزبان شخص جارہا ہے!
کام کرنے والوں کے ساتھ آپ لوگ ایسا ہی سلوک کرتے ہیں کیونکہ آپلوگوں کو تو اپنی بوٹیاں نوچنے والے ہی اچھے لگتے ہیں نا!
خرم صاحب۔
بڑی دل لگتی بات کی ہے ۔
عبداللہ صاحب۔
آپ کے مئیر صاحب آپ کو عریز ہیں تو اپنے کاموں کی بدولت وہ باقی ملک کوبھی بے حد پسند ہیں، بس زرا غصہ کے تیز اور جذباتی ہیں۔ ویسے کھرا آدمی ہوتا ہی اس جیسا ہے۔ اور ایسوں کی ہمارے یہاں کہاں گنجائش۔
بندے دا پتر نہ کھاتا تھا نہ کھل کر کھانے دیتا تھا، بس کام کام اور کام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جان چھٹی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اب چاہے کامران خان کتنے پروگرام کرلے ۔۔۔۔۔۔۔۔ غضب کرپشن اور عجب کہانیوں کے، نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔
اصل بات تو بس وہی ہے جو خرم نے کہ دی ہے ہم پسند ہی انہی کو کرتے ہیں جو ہم میں سے ہوتے ہیں۔
لیجیئے جن کے بارے میں ہم بھی سمجھتے تھے کہ دامن نچوڑں تو فرشتے وضو کریں ان کے بھی نامہ اعمال کھل رہے ہیں!
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/01/100114_judges_plots.shtml
لگتا ہے آپ کی دعا قبول ہوگئی ہے افضل صاحب!
Leave A Reply