ابھی شعیب اختر، محمد آصف اور آصف زرداری کی جگ ہنسائیوں سے جان چھوٹی نہیں تھی کہ شاہد آفریدی نے بطور کپتان بال ٹمپرنگ کا الزام قبول کرکے پاکستان کو مزید رسوا کر دیا۔ جب آدمی شکست پہ شکست کھا رہا ہو، جوئے میں ہر داؤ الٹا پڑ رہا ہو یا سٹاک ٹریڈنگ میں رقم گنوا رہا ہو تو پھر وہ بوکھلا جاتا ہے۔ اس بوکھلاہٹ میں وہ اپنی اوچھی حرکتوں سے مزید نقصان اٹھاتا ہے۔ ان حالات میں بہتر یہ ہوتا ہے کہ آدمی وقتی طور پر ایسے کھیل سے کنارہ کشی اختیار کر لے اور نئی تکنیک پر غور کرنا شروع کر دے۔

اب شاہد آفریدی کو دیکھیں، ابھی حال ہی میں اس نے حچ کیا ہے، یوسف کی مینجر اور کوچ کیساتھ لڑائی کی وجہ سے باہر بیٹھنے پراسے کپتنانی ملی اور اس نے ہار کے تسلسل کو روکنے کیلیے کتنی غلیض حرکت کی یعنی ٹی وی کیمروں کے سامنے اپنے دانتوں سے بال کاٹنا شروع کر دی۔ ٹی وی امپائر کی مداخلت پر بال بدلا گیا، شاہد آفریدی پر دو میچوں کی پابندی لگائی گئی اور اس نے نہ صرف اپنی غلطی کا اعتراف کیا بلکہ اس کی وجہ بہت ہی بھونڈی بیان کی۔ یعنی ٹیم کی ہار کے تسلسل کو روکنے کی کوشش میں اس نے یہ حرکت کی۔

شاہد آفریدی کی بال ٹمپرنگ کی کوشش باکسر مائیک ٹائسن کا ایک مقابلے میں ہولی فیلڈ کا کان کاٹنے سے مماثلت رکھتی ہے۔ دونوں جیت کیلیے بے چین تھے اور دونوں نے میچ جیتے کیلیے غلط طریقہ اختیار کیا مگر کامیاب نہ ہو سکے۔

پچھلے دنوں ٹی وی پر عمران خان سے حکومتی کرپشن پر رائے مانگی گئی تو وہ کہنے لگے ہماری حکومت کا یہ حال ہے کہ وہ کرپشن کے الزام میں تردید نہیں کرتے بلکہ یہ کہتے ہیں دوسرے لوگ بھی کرپشن کرتے ہیں۔ یہی جواز اس پٹھان یعنی شاہد آفریدی نے پیش کیا یعنی بال ٹمپرنگ دوسری ٹیمیں بھی کرتی ہیں۔ مگر اس کم عقل کو یہ معلوم نہیں کہ دوسری ٹیمیں اس طرح کھلے عام بال ٹمپرنگ نہیں کرتیں۔ خدا شاہد آفریدی سمیت ہماری ساری ٹیم کو عقل سلیم سے نوازے۔

ہم اگر کرکٹ بورڈ کے انچارج ہوتے تو آفریدی پر ہمیشہ کیلیے پابندی لگا کر اسے عبرت کا نشان بنا دیتے۔ کیونکہ اس حرکت کے بعد ہم آفریدی جیسے کھلاڑی کو نوجوان نسل کیلیے ماڈل نہیں بنا سکتے۔