اپنے بچپن میں مٹی کے تیل کی بوتل آٹھ آنے کی آیا کرتی تھی۔ بوتل کو رسی سے باندھا ہوتا تھا اور اکثر لوگ ایسے ہی مٹی کا تیل خرید کر لایا کرتے تھے۔ مٹی کا تیل لالٹین، دیا اور چولہا جلانے کے کام آیا کرتا تھا۔ اس وقت نہ تو گیس عام تھی اور نہ ہی گیس سیلنڈرز ملا کرتے تھے۔ عام پبلک لکڑی، کوئلے، بورے، تھاپیوں اور مٹی کے تیل سے اپنا چولہا گرما کیا کرتی تھی۔ مٹی کا تیل گیلی لکڑیوں کو آگ لگانے کے کام بھی آیا کرتا تھا۔ مٹی کے تیل کی یہ خصوصیت تھی کہ یہ پٹرول کی طرح ایک دم سے آگ نہیں پکڑتا تھا۔
جب تھوڑی ہمت بڑھتی تو لوگ بوتل کی بجائے مٹی کے تیل کا کنستر خرید کر رکھ لیتے۔ ہمیں وہ پمپ بہت اچھا لگا کرتا تھا جس سے کنستر سے تیل نکالا جاتا تھا۔ کچھ لوگوں کو مٹی کے تیل پر پکا کھانا اچھا نہیں لگا کرتا تھا۔ ان کو کھانے میں مٹی کے تیل کی بو آیا کرتی تھی۔
اس وقت پٹرول اور مٹی کے تیل کی قیمت میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ اب کچھ عرصے سے یہ فرق ایسا کم ہونا شروع ہوا کہ آج قیمتوں میں اتار چڑھاو کے بعد صرف سوا روپیہ رہ گیا ہے۔ جب شروع میں حکومت نے پٹرول کے مقابلے میں مٹی کا تیل مہنگا کرنا شروع کیا تو حکومت نے یہ بہانہ بنایا کہ اس طرح پٹرول میں مٹی کے تیل کی ملاوٹ کم ہو جائے گی۔ بے بس حکومت نے ملاوٹ کی روک تھام کرنے کی بجائے مٹی کا تیل مہنگا کرنا آسان سمجھا مگر یہ نہیں سوچا کہ ان غریبوں کا کیا بنے گا جو مٹی کے تیل کا چولہا استعمال کرتے ہیں۔
پٹرول کے برابر مٹی کے تیل کی قیمت لانے کی حکومت کی یہ منطق ہمیں آج تک فضول ہی لگتی ہے۔ کیا واقعی یہ سچ ہے یا پھر اس کے پیچھے کوئی اور راز ہے۔ اگر کوئی صاحب اس راز سے پردہ اٹھا سکیں تو مہربانی ہو گی۔
1 user commented in " مٹی کا تیل "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackراز تو صاحبِ راز ہی اخفا کر سکیں گے لیکن ہم تو یہ جانتے ہیںکہ حکومت کو اشیا کے نرخ بڑھانے کی ہر تجویز اچھی لگتی ہے اور وہ کوئی ایسا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی جس کے ذریعے غریب عوام کو دق کیا جا سکے۔
Leave A Reply