یہ پہلی دفعہ نہیں ہے کہ کسی عیسائی کو پاکستان میں توہین رسالت کے قانون کے تحت سزائے موت سنائی گئی اور بعد میں سزا پانے والے کو حکومت نے خود اپنے ہاتھوں سے بیرون ملک بھیج دیا۔ جس مزدور عورت آسیہ بی بی کو حال ہی میں سزائے موت سنائی گئی، اس کی داد رسی کیلیے پہلے پوپ بینیڈکٹ نے اپیل کی، پھر گورنر پنجاب اس عورت سے جیل میں ملے۔ اس کے بعد امریکہ نے اس عورت کو بمع خاندان کے شہریت دینے کا اعلان کیا اور اب وہ عورت امریکہ کوچ کرنے کیلیے اسلام آباد پہنجائی جا چکی ہے۔

 اس سارے قضیے میں پہلے بھی پاکستان کی بدنامی ہوئی اور اب بھی ہو رہی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ حکومت نے کبھی ایسی سزا پانے والوں کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں۔ بلکہ کبھی پورے قصے کی غیرجانبداری سے تحقیق و تفتیش کی ہی نہیں۔ ماضی کے قصے سنانے کی بجائے ہم حکومت اور سپریم کورٹ سے توقع کرتے ہیں کہ وہ اس عورت کو تب تک بیرون ملک نہ بھیجے جب تک اس کے مقدمے کا جائزہ لے کر یہ ثابت نہ کر دے کہ اس عورت پر توہین عدالت کا مقدمہ غلط تھا۔ اگر مقدمہ غلط ثابت ہو جائے تو اس مقدمے میں ملوث مدعی، پولیس، گواہوں اور جج تک کو ایسی عبرت ناک سزا دی جائے کہ دوبارہ کوئی ایسی غلطی  کرنے کی ہمت نہ کرے۔ اگر حکومت اور سپریم کورٹ اس دفعہ ایسا کچھ کر دکھائے تو پھر ہمارے خیال میں اس عورت کو بیرون ملک بھیجنے کی بجائے پاکستان میں عزت سے رہنے کا حق مل جائے گا۔

اگر عورت کا گناہ ثابت ہو جائے تو پھر ہماری حکومت کو سخت رویہ اپناتے ہوئے اور ہر قسم کے بیرونی دباو کو رد کرتے ہوئے سزا بحال رکھنی چاہیے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ سپریم کورٹ سوموٹو ایکشن لیتے ہوئے اس مقدمے کو جلد سے جلد سنے اور فیصلہ میرٹ پر سنائے۔ تا کہ انصاف کا بول بالا ہو سکے۔

مگر ایسا نہیں ہو گا کیونکہ حکومت اور سپریم کورٹ کے پاس ایسے نیک کاموں کیلیے وقت ہی نہیں ہے۔ اس عورت کا بیرون ملک چلے جانا یہ ثابت کرے گا کہ ہماری عدالتوں کی دوسرے ملکوں کی نظروں میں کوئی وقعت نہیں ہے اور وہ کسی بھی مجرم کو باعزت رہا کرا کے اپنے ملک میں پناہ دے سکتے ہیں۔

بہتر یہی ہوتا اگر حکومت عورت کو باہر بھیجنے کی بجائے اسے ایوان صدر یا ایوان وزیراعظم میں پناہ دے کر عزت بخشتی۔