جنگ اخبار کی خبر کیمطابق کراچی کی شاہراہ پر ٹریفک میں پھنسی گاڑیوں کو مسلح ڈاکووں نے لوٹ لیا۔ اس سے خطرناک صورتحال اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی کہ لوگ شاہراہ پر اپنی گاڑی میں لوٹے جائیں۔ ڈاکو لوٹ کر آرام سے کھسک جائیں اور تمام گاڑی مالکان دیکھتے رہ جائیں۔
ہمیں یاد ہے نیویارک میں ایک دفعہ ٹریفک پھنسی ہوئی تھی تو چند کالے ٹیلیفون سیٹ لے کر شاہراہ پر نمودار ہو ئے اور بیس بیس ڈالر میں بیچنے شروع کر دیے۔ ہمیں چونکہ ٹیلیفون کی ضرورت نہیں تھی اس لے ہم نے ایک کالے کو پانچ ڈالر کی آفر کی۔ اس کالے کو اتنا غصہ آیا کہ اس نے ہماری گاڑی کو لات ماری اور بڑا سا ڈنٹ ڈال کر بھاگ گیا۔ لیکن ہم نے زندگی میں اس طرح کی لاقانونیت پہلے نہیں دیکھی جو آج کل کراچی میں دیکھی جا رہی ہے۔
اس لاقانونیت کا حل صرف اور صرف یہی ہے کہ بغیر کسی پریشر کے پولیس کو آزادی سے صورتحال کو کنٹرول کرنے کا موقع دیا جائے۔ ایم کیو ایم بھی کوشش کرے کہ جو رعب اور ڈر ان کا کراچی کے لوگوں پر قائم ہے وہ اسے ختم کرے اور کراچی میں قانون کی حکمرانی کیلیے اہم کردار ادا کرے۔
3 users commented in " لاقانونیت "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackلاقانونیت کے موقع پر اب اس سے اچھا موقع اور کہاں ؟
یہ خبر سنڈے مارننگ لطیفہ اچھا رہا ۔
آپکی ایسی ہی باتوں پہ مجھے ہنسی آتی ہے۔ میں کراچی میں رہتی ہوں خود دو دفعہ چیزوں سے ہاتھ دھویا۔ ایک دفعہ سرائیکی ایک دفعہ پنجابی ڈاکو۔ میری عزیزہ کے گھر ڈاکہ پڑا سرائیکی، دوست کے گھر ڈاکہ پڑا پٹھان، عزیزہ کا پرس چھینا مکرانی، عزیزہ کا بس میں زیور اتار لیا پنجابی، عزیز کی دوکان پہ ڈاکا پڑا مہاجر، کراچی سے حیدر آباد جاتے ہوئے عزیز کی پوری بس کو لوٹ لیا سندھی۔
اس کاسموپولیٹن شہر کو جاننے کی کوشش کریں میرا پاکستان صاحب، پنجاب اور پنجاب دوستوں کے حلقے
سے باہر نکل آئیں۔
مسٹر میرا پاکستان اور عنیقہ ناز
اچھے اور برے لوگ ہر قوم میں ہوتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ پاکستانیوں میں برے افرادکا تناسب ماشااللہ سے کچھ زیادہ ہی ہے ، پاکستانیوں جتنی بے حس اور کرپٹ قوم(بیک وقت) شاید ہی کوئی ہو۔
جو اپنے بھائیوں کوچندہ اور بھتہ کےنام پر لوٹ تو سکتی ہو مگر چور سیاستدانوں کے خلاف کچھ نہ بول سکتی ہو
جوبلاوجہ اپنے بھائی بندوں کا گلا کاٹ کر ان کے ٹکڑے کر کے تو پھینک سکتی ہو مگر اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر چپ رہتی ہو
جومسجدوں ،امام بارگاہوں میں تو پھٹ سکتی ہومگراسمبلیوں کا رستہ نہ جانتی ہو
جو گھنٹوں لوڈشیڈنگ بھی برداشت کرتی ہو اور پھردھوپ میں گھنٹوں لائن میں لگ کر بل بھی جمع کراتی ہو
لعنت ہی ہو ایسی قوم پر،
جس میں ہر فردکا ہاتھ دوسرے فرد کی جیب میں ہو۔
آئیے دیکھیں
وہ پولیس والاجس کو روک کر رشوت لے رہا ہے وہ ایک ڈاکٹر ہے، ڈاکٹرجومخصوص دوا(جو صرف ایک ہی میڈیکل اسٹور پر ملتی ہے) مریض کو دے رہا ہےوہ ایک دودھ والا ہے ، دودھ والامہنگایا ملاوٹیا دودھ جس کو دے رہا ہےوہ ایک سرکاری ادارے کاچپراسی ہے
چپراسی، جو فائل صاحب (جو بارہ بجے سے پہلے نہیں آتے) تک پہنچانے کا چائے پانی طلب کر رہا ہے وہ پولیس میں نوکری کی درخواست کی فائل ھے۔
اچھی طرح سمجھ لیں اس ملک میں صرف دو قومیں ہیں ایک امیر اور دوسری غریب ۔
تاہم گندگی میں ہاتھ دونوں کا ہی ہے کسی کا کم کسی کا زیادہ۔
اور آپ لوگ بے وقوفوں کی طرح قومیتوں میں ہی الجھے رہئیے۔شاباش
Leave A Reply