ڈاکٹر طاہر القادری نے جب لانگ مارچ شروع کیا تو اسلام آباد کے ڈی چوک کو التحریر چوک بنانے کا اعلان کیا۔ وہ جس مقصد کیلیے نکلے تھے اچھا تھا مگر کیا انہوں نے وہ مقصد پا لیا۔ نہیں۔ کیونکہ جس کام کا انجام اچھا نہ ہو وہ کام اچھا نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے اور اپنے مریدین کی پہنچ سے بڑھ کر مشن شروع کیا جو بعد میں ان کی ہمت جواب دینے سے زمین بوس ہو گیا۔ اگر وہ ایک دن قبل جعلی معاہدہ کر کے دھرنا ختم نہ کرتے تو اگلے دن بارش کی صورت میں خدا کا عذاب ان کے کمزور مشن کو خود ہی بارش میں بہا کر لے جاتا۔ یہ تو ان کی قسمت اچھی تھی کہ انہیں واپسی کا باعزت راستہ مل گیا۔
اگر طاہرالقادری کا مشن حسینیت والا ہوتا تو وہ زندہ واپس نہ لوٹتے اور حکمرانوں کو یزید کہنے والوں سے ہاتھ نہ ملاتے کیونکہ حضرت امام حسین نے ایسا نہیں کیا تھا۔
طاہر القادری کے لانگ مارچ اور دھرنے سے جہاں ان کی جگ ہنسائی ہوئی وہیں ان کی مذہبی شخصیت کو بھی نقصان پہنچا۔ ہم تو اکثر کہا کرتے ہیں کہ فلاحی کام کرنے والوں کو سیاست میں نہیں آنا چاہیے اور وہ بھی پاکستانی سیاست میں جو عبدالستار عیدھی جیسے شخص کو بھی معاف نہیں کرتی۔
اب طاہرالقادری کیلیے یہی بہتر ہے کہ وہ کینیڈا واپس لوٹ جائیں کیونکہ وہ بزدل ہیں اور بزدلوں کیلیے سکہ بند سوسائٹی بہتر ہوتی ہے۔ پاکستان میں رہنے کیلیے اور یہاں کے سسٹم کو درست کرنے کیلیے ہمت درکار ہے جو ابھی تک کسی میں نظر نہیں آ رہی۔ جس دن پاکستانی قوم کو بہادر لیڈر مل گیا اس دن پاکستان کی تقدیر بدل جائے گی۔ ابھی تو سارے طاہرالقادری کی طرح خفیہ مشن لیے ذاتی مفادات کے چکر میں ملک کا بیڑہ غرق کر رہے ہیں اور اپنی جھولیاں بھر رہے ہیں۔
ویسے سوچنے والی بات ہے طاہرالقادری نے لاہور کے جلسے، لانگ مارچ اور دھرنے کے کروڑوں کے اخراجات کیسے برداشت کیے۔ اگر وہ قوم کو صرف یہی حساب دے دیں تو ان کے گناہوں کا کفارہ ادا ہو جائے گا۔