چند ہفتے قبل جنرل صدر مشرف نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ سیاسی جماعتیں اگر الیکشن کا بائیکاٹ کرتی ہیں تو اس سے انہیں کوئی غرض نہیں۔ انہوں نے کہا تہا “میں تو موجود ہوں اور کہیں جانے والا نہیں”۔ جنرل صاحب کے اس دوٹوک انداز سے یہی لگتا ہے کہ چت ہو یا پٹ، جیت جنرل صاحب کی ہی ہوگی۔ یہ جنرل مشرف بھی ہوسکتے ہیں یا کوئی دوسرا جنرل بھی ۔ وجہ صاف ظاہر ہے انتہا پسندی کی جنگ میں فوج کے اتحادی کبھی نہیں چاہیں گے کہ انہیں ایک آدمی کی بجائے پارلیمنٹ کی فوج ظفر موج سے معاملات طے کرنے پڑیں۔

اسی تناظر میں ہم مستقبل کے حالات کو اس طرف جاتا دیکھ رہے ہیں جہاں فوج ہی فوج کھڑی ہے۔

1٫  اب صدر کے اگلی اسمبلیوں سے چناؤ کا وقت تو گزر گیا کیونکہ اگر آج اسمبلیاں توڑ دی جائیں تو اگلے انتخابات سے پہلے صدر کی مدت ملازمت ختم ہوجائے گی۔ اس کا مطلب ہے کہ جنرل مشرف انہی اسمبلیوں سے دوبارہ صدارت کا ووٹ لیں گے۔ پی پی پی خاموش رہے گی اورایم ایم اے کے مولانا فضل الرحمان بھی استعفے دینے کے حق میں نہیں ہوں گے۔ ہوسکتا ہے مسلم لیگ ن اور اس کی حواری چند چھوٹٰی جماعتوں کے ممبران استعفے دے دیں۔ اسمبلیوں میں احتجاج بھرپور ہوگا مگر جنرل صاحب صدارت کا ووٹ لینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس کے بعد اسمبلیاں توڑ دی جائیں گی اور انتخابات میں تمام پارٹیاں حصہ لیں گی۔ کسی سیاسی پارٹی کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہوگی اور مسلم لیگ ق کو مجبورا پیپلز پارٹٰی سے ملکر حکومت بنانی پڑے گی۔ اس نئے اتحاد کا سب سے بڑا نقصان ایم کیو ایم کو ہوگا جس کی اس وقت شاید حکومت سازی کیلیے ضرورت نہ رہے۔۔ اب پیپلز پارٹی اپنے باغی ارکان یعنی پی پی پی پیڑیاٹ سے ملکر کر کس طرح حکومت چلاتی ہے یہ صورتحال دیکھنے والی ہوگی۔

2٫ اگر جنرل مشرف کے دوبارہ صدارتی انتخاب کے وقت اسمبلیوں سے حزب اختلاف نے خدانخواستہ یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے استعفے دے دیے اور صدر کا انتخاب قانونی طور پر ناممکن ہوگیا تو پھر اسمبلیوں کی مدت ایک سال کیلیے بڑھا دی جائے گی اور خالی نشتوں پر دوبارہ انتخابات کرائے جائیں گے۔ ان حالات میں اگر حزب اختلاف تحریک چلانے میں کامیاب ہوگئی تو پھر ملک میں ایمرجینسی لگا دی جائے گی اور بڑے بڑے سیاستانوں کو گرفتار کرلیاجائے گا۔

3٫ اگر استعفوں کی وجہ سے حالات مزید بگڑ گئے تو ہو سکتا ہے جنرل مشرف کو فارغ کردیا جائے اور کوئی اور جنرل حکومت پر قبضہ کرلے۔ وہ پھر جنرل مشرف کی روایت کو دھراتے ہوئے احتساب اور وقت پر انتخابات کا جھانسہ دے گا اور حکومت کرتا رہے گا۔

4اس سارے کھیل میں وہی کامیاب رہے گا جو فوج کیساتھ رہے گا۔  باقی لوگ جیل میں سڑتے رہیں گے یا ملک بدر کردیے جائیں گے۔ ہاں اگر حالات جنرل مشرف یا دوسرے جنرل کے قابو سے باہر ہوگئے تو پھر ملک میں خانہ جنگی چھڑ جائے گی جو طویل مدت تک جاری رہے گی۔ اس دوران خود کش حملے ہوں گے، فوج کو نشانہ بنایا جائے گا اور لوگوں کو گرفتار کرکے جیلیں بھر دی جائیں گی۔

5٫ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس سارے گورکھ دھندے میں وکیلوں کی تحریک کہاں جائے گی اور چیف جسٹس کا کیا بنے گا۔ ان لوگوں کا کچھ نہیں بنے گا۔ چیف جسٹس بحال ہوجائیں گے اور وہ بھی فوج کے آگے دم نہیں مار سکیں گے۔

ان تمام خدشات سے چھٹکارے کا حل صرف ایک ہی ہے اور اسی میں جنرل پرویز مشرف کی عافیت ہے کہ وہ دوبارہ انہی اسمبلیوں سے منتخب ہونے کا ارادہ ترک کردیں۔ اپنی صدارت اور فوج کے عہدے سے باعزت ریٹائر ہو کر نگران حکومت قائم کردیں۔ نگران حکومت کی نگرانی میں صاف شفاف انتخابات ہوں اور جو جیتے اسے حکومت کرنے کا اختیار دے دیا جائے۔ اس کے نتیجے میں جنرل صاحب کے پچھلے سارے گناہ معاف ہوجائیں گے اور قوم انہیں ہیرو کا درجہ دے دے گی۔ دوسری صورت میں جنرل صاحب نے آج نہیں تو کل ہر حال میں جانا ہی ہے اور ان کی اس طرح کی روانگی ان کی شخصیت کو سابقہ جنرلوں کی طرح منوں مٹٰی تلے دفن کر جائے گا اور ان کا  نام لینے والا بھی کوئی نہ ہوگا۔ مگر جنرل صاحب کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ بعد میں ان کا نام کس طرح لیا جائے گا اور ملک کا کیا بنے گا۔ ان کو غرض صرف اور صرف اس بات سے  ہے کہ جب تک وہ زندہ ہیں وہ موجود رہیں اور کہیں نہ جائیں۔