کل سندھ ہائی کورٹ پر ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی اور عام ووٹرز نے اس وقت چڑھائی کردی جب 12 مئی کے واقعات کے سوموٹو ایکشن کی کاروائی شروع ہونے والی تھی۔ فل بینچ نے صورتحال کو بھانپ کر کاروائی 17 ستمبر تک ملتوی کردی۔ لگتا ہے ایم کیو ایم نے بھی سندھ ہائی کورٹ پر اسی قسم کا دباؤ ڈالنے کی کوشش کی ہے جس طرح وکلاء تحریک نے چیف جسٹس کی بحالی کی تحریک چلا کر سپریم کورٹ کے فل بینچ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وکلاء کی تحریک ان کی ذات کیلیے نہیں تھی بلکہ عدلیہ کی آزادی کیلیے تھی اور ادھر سندھ ہائی کورٹ پر چڑھائی ایم کیو ایم کے ذاتی مفاد کیلیے تھی۔ ایم کیو ایم کی قیادت  نے ذاتی شناخت  سے بچنے کیلیے اپنے کارکنوں کو جھنڈے لانے سے منع کردیا تھا مگر وہ انہیں الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے نعرے لگانے سے منع نہ کرسکی۔ اس چڑھائی کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ کسی بھی پاکستانی کو ہائی کورٹ آنے سے نہیں روکا جاسکتا۔  یہ سب لوگ 12 مئی کے واقعات کے گواہ ہیں اور گواہی دینے کورٹ آئے ہیں۔ ایم کیو ایم کو معلوم ہونا چاہیے کہ گواہی دینے کا ایک طریقہ ہوتا ہے اور وہی طریقہ مہذب لوگ اپنا کر عدالت میں گواہی دینے آتے ہیں، ایسے ہی منہ اٹھا کر چلے نہیں آتے۔

سندھ ہائی کورٹ پر ایم کیو ایم کی چڑھائی پر جب حامد میر نے چوہدری شجاعت سے رائے پوچھی تو انہوں نے اس واقعے کی مذمت کی مگر ساتھ ہی یہ بھی باور کرادیا کہ اس سے پہلے بھی عدالتوں پر چڑھائی ہوچکی ہے۔ ان کا اشارہ نواز شریف دور میں سپریم کورٹ پر چڑھائی کی طرف تھا۔ مگر جب حامد میر نے انہیں یاد دلایا کہ وہ اس وقت نواز شریف کی حکومت میں وزیر داخلہ تھے تب انہوں نے آئیں بائیں شائیں شروع کردی۔ اسی طرح چوہدری شجاعت نے نواز شریف کی جلاوطنی پر یاد دلایا کہ نواز شریف کے دور میں آمل کانسی کو بھی اسی طرح امریکہ کے حوالے کیا گیا تھا۔ حامد میر نے پھر کہا کہ تب بھی آپ وزیر داخلہ تھے۔ چوہدری شجاعت نے کہا کہ آمل کانسی کو وزارت داخلہ کی اجازت کے بغیر امریکہ کے حوالے کیا گیا تو حامد میر نے کہا کہ آپ استعفٰی دے دیتے۔ اس کا چوہدری شجاعت کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

 اس طرح سندھ ہائی کورٹ پر موجودہ چڑھائی کو پرانی غلطیوں کے حوالے دے کر جائز قرار دینا عقل کی کمی ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کی چند ایک سلجھی ہوئی اور منظم جماعتوں میں سے ایک ہے اور اس سے 12 مئی کے فسادات اور سندھ ہائی کورٹ پر چڑھائی کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔ یہ بات درست ہے کہ اگر اسی طرح کورٹس پر دباؤ بڑھتا گیا تو لوگ بندوقیں اٹھا کر خود ہی انصاف کرنے لگیں گے۔

شکر ہے جنرل مشرف نے اسے بھی طاقت کے مظاہرے سے تعبیر نہیں کیا اور خاموشی اختیار کی۔ فرض کریں سندھ ہائی کورٹ اس چڑھائی سے دب جاتی ہے تو کیا یہ پاکستان کے مستقبل کیلیے اچھا اقدام ہوگا؟  اس کا جواب اگر حکومت کے پاس ہے تو وہ دے۔

میڈیا نے بھی اس واقعے کی کوریج اس طرح نہیں کی جس طرح اس نے 12 مئی پر کی۔ پرنٹ میڈیا اس واقعے کی اگر تصاویر بھی شائع کردیتا تو لوگوں کو اس کا تجزیہ کرنے میں مزید آسانی ہوتی۔ ہماری نظر میں ایسے واقعات کی جتنی تشہیر ہوسکے کرنی چاہیے تاکہ ایسے واقعات سے آگاہی پاکستانی قوم کی تربیت میں معاون ثابت ہوسکے۔