مساجد میں بچوں کا شوروغوغا اور غل غپاڑہ ہمیشہ سے بزرگ نمازیوں کیلیے پریشانی کا باعث رہا ہے۔ بچوں کا شرارتی پن ویسے ہی مشہور رہا ہے اور لوگ ان کی مثالیں دیا کرتے ہیں۔ لیکن یہ شرارتیں کبھی کبھار انتہائی صابر اور بچوں سے پیار کرنے والے شخص کا دماغ بھی گھما دیتی ہیں۔ یہی کچھ پچھلے اتوار کو ظہر کی نماز کے دوران ہوا۔

 ہماری مسجد میں بچوں کو اسلامی تعلیم دینے  کیلیے ہفتہ اتوار کے دن دوگھنٹے کی کلاس ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ظہر کا وقت ہو جاتا ہے اور والدین بچوں سمیت مسجد میں نماز کیلیے رک جاتے ہیں۔ اس دوران کچھ والدین کام کاج کی وجہ سے لیٹ ہوجاتے ہیں اور ان کے بچے بھی مسجد میں نماز کیلیے رک جاتے ہیں۔ کل وہی ہوا جو ہر ہفتہ اتوار کو ہوتا ہے یعنی بچوں نے دوران نماز جی بھر کر شرارتیں کیں اور اس دفعہ تو انہوں نے اتنا شور مچایا کہ نمازی بل بلا اٹھے۔ کرنا خدا کا ایسا ہوا کہ مغرب کی نماز میں بھی کسی کے دو تین سالہ دو بچوں نے خوب شور مچایا جس کی وجہ سے امام صاحب سمیت سارے نمازی ڈسٹرب ہوئے۔

 اب پھر ایک دفعہ یہ بحث چھڑگئي کہ بچوں کو شرارتوں سے کیسے روکا جائے۔ کسی نے کہا کہ بچوں کو والدین کے بغیر مسجد میں نہیں داخل ہونے دینا چاہیے۔ کسی نے کہا کہ جس کا بچہ شور مچائے اس بچے کو نمازیوں کے سامنے لا کر اس کے والدین کی سرزنش کی جائے۔ کسی نے بچوں کی نگرانی کیلیے ایک شخص کی ڈیوٹی کی تجویز پیش کی جو نماز باجماعت پڑھنے کی بجائے صرف بچوں کو شرارتوں سے باز رکھے۔ کسی نے کہا کہ ہر بچے کو ایک نمازی کیساتھ کھڑا کیا جائے۔

 شرارتوں کی وجہ بچوں کا آپس میں اکٹھے نماز پڑھنا قرار پایا اور اس کے تدارک کیلیے اس دفعہ سنجیدہ کوششیں شروع کردی گئیں۔

بچوں کو کنٹرول کرنے کی بحث جاری تھی کہ ہم نے سب سے اپنے ماضی میں جھانکنے کی درخواست کی اور پوچھا کہ وہ جب بچے تھے تو کیا وہ شرارتیں نہیں کیا کرتے تھے۔ اس کے بعد سب نے اپنی اپنی شرارتوں کی روداد سنانی شروع کردی۔

ایک صاحب کہنے لگے نماز کے دوران جب سب لوگ سجدے میں ہوتے تو ان کے ہمجولی بچےکسی نمازی کی دونوں ٹانگیں کھینچ کر بھاگ جایا کرتے۔ ایک دفعہ ایک نمازی جماعت میں شامل ہونے کی بجائے دروازے کے پیچھے چھپ گیا۔ بچے جونہی شرارت کرکے بھاگنے لگے اس نے دروازہ بند کردیا۔ پھر کیا تھا بچوں کی خوب پٹائی ہوئی۔

ہمیں یاد ہے ہماری مسجد میں ہم بچہ لوگ کبھی نمازیوں کی جوتیاں پانی کی ٹوٹیوں کے نیچے رکھ کر گیلی کر دیا کرتے اور کبھی نمازی کے پیچھے پانی بھرا غبارہ رکھ دیتے۔ جونہی نمازی سجدے سے اٹھتے ہوئے غبارے پر بیٹھتا، غبارہ پھٹ جاتا اور اس کے کپڑے گیلے ہو جاتے۔ ایک دفعہ تو ایک بدمعاش بچے نے نمازی کے پیچھے مٹي کا لوٹا رکھ دیا اور جب وہ سجدے سے اٹھا تو اسے بہت تکلیف ہوئی۔

رمضان کے مہینے میں بچے تراویح پڑھنے کیلیے گھر سے آتے اور عشاء کی جماعت کے بعد گلیوں میں چھپا چھپائی کھیلنے نکل پڑتےاور جونہی وتر پڑھنے کا وقت ہوتا واپس آجاتے۔ بچوں کی یہ عادت تو عام تھی کہ وہ پہلی رکعت میں پیچھے بیٹھے رہتے اور تب جماعت میں شامل ہوتے جب امام صاحب رکوع میں جانے کیلے اللہ اکبر کہتے۔

 روزوں میں افطاری کے وقت جب مغرب کی نماز ہو رہی ہوتی تو ہم میں سے کئی بچے نمازیوں اور امام مسجد کے حصے کی مٹھائی اور جلیبیاں لے کر بھاگ جایا کرتے تھے۔

 ہمارے بچپن میں کئی بزرگ نمازی دھوتی باندھ کر آیا کرتے تھے اور کئی بچہ لوگ ان کی دھوتی کا لڑ[گرہ] نکال دیتے جس سے دھوتی کھل جاتی اور بچے بھاگ جاتے۔

ایک دفعہ مغرب کی نماز کے دوران باہر پھیری والے نے آواز لگائی”انڈے گرم انڈے”۔ نماز میں شامل امام مسجد کے سات سالہ بچے نے بھی اس کی نقل میں سجدے کے دروان ایسی ہی آواز لگا دی “انڈے گرم انڈے” پھر کیا تھا تمام کے تمام نمازی اپنی ہنسی ضبط نہ کر سکے اور خوب ہنسے۔ بدقسمتی سے وہ بچہ چند روز بعد وفات پاگیا مگر بعد میں کئی سالوں تک لوگ اس کی شرارت کا ذکر کرتے رہے۔

 ایک بات ہے جس دن ہم میں سے کوئی شرارتی بچہ موقع واردات پر پکڑا جاتا تو پھر اس کی پہلے تو خوب دھنائی ہوتی اور بعد میں اسے والدین سے پٹنے کیلیے ان کے حوالے کردیا جاتا۔ لیکن یورپ میں رہنے والوں کا پرابلم یہ ہے کہ وہ بچے کو پیٹ نہیں سکتے۔

پچھلے دنوں ہمیں اپنی پرانی مسجد میں چند نمازیں پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اپنے بچپن کے شرارتی دوست والدین بننے کے بعد پکے نمازی بنے ہوئے تھے اور اب ان کے بچے ویسی ہی شرارتیں کررہے تھے۔

ہم نے اسی لیے سب سے کہا کہ بچوں کی شرارتوں کو اتنا سنجیدہ نہ لیں بلکہ آرام سے ان کو سمجھائیں۔ ہو سکتا ہے ایک دن جب یہی شرارتی بچے جوان ہوں گے تو ہم انہی کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہوں۔