پچھلے چند روز سے ملک کے حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ جیسے سوات میں جنگ چھڑ گئی، راولپنڈی کے حساس علاقے میں خود کش حملہ، سپریم کورٹ نے چیف جسٹس کیساتھ بدسلوکی کرنے والوں کو سزا سنا دی، گمشدہ افراد کی بازیابی کیلیے سپریم کورٹ کی کوششوں سے حکومت کی اکتاہٹ، جنرل مشرف کے باوردی صدر کا الیکشں لڑنے کا سپریم کورٹ میں مقدمہ، بینظیر صاحبہ پر خودکش حملہ، بینظیر صاحبہ کی حکومت کیساتھ نورا کشتی، نواز شریف کی سپریم کورٹ کی حکم عدولی کرتے ہوئے دوبارہ جلاوطنی وغیرہ وغیرہ۔

آج جب حکومتی وکلا نے جنرل مشرف کے دوبارہ باوردی صدر بننے کے کیس کو لمبا کرنے کی کوشش کی تو ہر طرف چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں۔ ان چہ میگوئیوں کے پیچھے ان افواہوں کا بھی ہاتھ ہے جن کیمطابق حکومت سپریم کورٹ کی ہر معاملے میں دخل اندازی کو ختم کرنے کیلیے قانون سازی کرنے کی کوششیں کررہی ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ حکومت گمشدہ افراد کی گرفتاری کو قانونی شکل دینے کیلیے آرڈینینس جاری کرنے والی ہے اور کوئی کہتا ہے کہ حکومت جنرل مشرف کے دوبارہ باوردی صدر کے الیکشن کو تحفظ دینے کیلیے قانون سازی پر کام کررہی ہے۔

ان افواہوں کو تب مزید تقویت ملی جب جنرل مشرف کے دوبارہ باوردی صدر بننے کے مقدمے میں آج حکومتی وکلا نے اپنے دلائل کیلیے مزید وقت مانگ لیا۔ اس سے پہلے اٹارنی جنرل خود کہ چکے تھے کہ اس کیس کا فیصلہ دو تین روز میں آجائے گا۔ مگر آج بینچ کے ایک جج کی ایک ہفتہ رخصت اور پھر حکومتی وکلا کا اپنے دلائل کیلیے مزید کئی روز کی مہلت مانگنا ایک نئی حکومتی حکمت عملی کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ آج تو یہ واضح ہوگیا ہے کہ اس کیس کا فیصلہ پندرہ نومبر سے پہلے نہیں ہوگا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پندرہ نومبر صدر مشرف کے دونوں عہدے رکھنے کا آخری دن ہے۔ حکومت کبھی نہیں چاہے گی کہ سپریم کورٹ اس کیخلاف پندرہ نومبر کے بعد فیصلہ دے جب جنرل مشرف بقول ان کے صرف مسڑ مشرف بن چکے ہوں گے۔ قیاس یہی کیا جارہا ہے کہ سپریم کورٹ کے حکومت مخالف فیصلے کے تدارک کیلیے قانون سازی کی جارہی ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلے سے قبل ہی اسے بے بس کرنے کی ترکیب سوچی جارہی ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر یہ بات ثابت ہوجائے گی کہ حکومت کے نعرے “سب سے پہلے پاکستان” کا مطلب “سب سے پہلے میں” ہی تھا اور ہے۔

دوسری طرف حزب اختلاف اتنا نہیں مگر وکلا زیادہ شور مچارہے ہیں کہ وہ حکومت کو کوئی ایسا قانون بنانے نہیں دیں گے جس کی رو سے کسی ایک شخص کو قانونی تحفظ حاصل ہوجائے۔

 بینظیر کی خاموشي اس سارے معاملے میں معنی خیز ہے۔ وہ تو اس ہنگامی صورتحال سے بچنے کیلیے دبئی جانے کا پروگرام بنارہی ہیں۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ابھی آپ کو آئے دوہفتے نہیں ہوئے اور آپ اپنے بچوں سے اداس بھی ہوگئیں۔ حالانکہ آپ نے ابھی اپنے بچوں کیساتھ کتنے سال گزارے ہیں۔ دوسرے اگر آپ اتنی ہی اداس ہیں تو اپنے بچوں کو پاکستان بلا لیں۔ حکومت ان کو بھی اعلٰی شخصیت کے برابر سیکیورٹي فراہم کرے گی۔ یہ تو بقول عمران خان کے مولانا فضل الرحمان  والا معاملہ ہوا کہ جب بھی ملک میں بحران آتا ہے مولانا یا تو عمرہ کرنے چلے جاتے ہیں یا بیمار پڑجاتے ہیں۔ بینظیر کو چاہیے کہ ملک کے موجودہ بگڑے ہوئے حالات ميں دبئی جانے کا پروگرام کینسل کردیں اور ملک کو شخصی حکمرانی سے نجات دلانے کیلیے دوسروں کے ساتھ ملکر جدوجہد جاری رکھیں۔

ہمارے خیال ميں موجودہ حالات میں اگر حکومت نے صرف ایک شخص کے اقتدار کے تحفظ کیلیے قانون میں ردوبدل کیا تو ملکی بحران شدید تر ہوجائے گا۔ ہمیں يحیٰ خان کے اٹھائے گئے ذاتی اقدامات کے نقصانات سے سبق سیکھنا چاہئے اور ملک کو بچانے کیلیے اپنے شخصی اقتدار کو قربان کرنے سے بھی دریخ نہیں کرنا چاہیے۔ ہم مانتے ہیں کہ اقتدار کی قربانی آسان نہیں ہے مگر ملک کو توڑنے کا جرم اپنے سر لینا بھی بہت مشکل ہے۔