نو مارچ کو جب جنرل مشرف نے چیف جسٹس کو غیرفعال کیا اور پھر ردعمل کے طور پر اپنی مقبولیت کھو بیٹھے تو مغربی میڈیا کو جنرل مشرف کے جانے کے بعد ایٹمی اثاثوں کے دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کی فکر ستانے لگی۔ تب سے کوئی بھی دن ایسا نہیں گزرتا جب مغربی میڈیا یا مغربی حکومتیں پاکستانی ایٹمی ہتھیاروں کے غیر محفوظ ہونے کا ڈھونڈرا نہیں پیٹتیں۔ کبھی ایٹمی ایجنسی کے سربراہ بیان داغ دیتے ہیں اور کبھی امریکی حکام۔ یہاں تک کہ بھارت بھی اب یہ بیان دینے لگا ہے کہ وہ بھی پڑوسی ملک میں حالات کی خرابی کی صورت میں مداخلت کرکے ایٹمی ہتھیاروں کو دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے سے روکنے کی کوشش کرے گا۔

یہ وہی ٹیکنالوجی ہے جس کی مدد سے امریکہ نے دوسری عالمی جنگ جیتی اور جاپان کے دو شہروں کو تباہ و برباد کردیا۔ اس کے بعد دوسری عالمی طاقتوں نے اپنی حفاظت کیلیے ایٹمی طاقت حاصل کرلی۔ اسی ایٹمی طاقت کا کمال ہے کہ امریکہ اور روس پچاس سال تک سرد جنگ میں ملوث رہنے کے باوجود ایک دوسرے سے نبرد آزما نہ ہوسکے۔

پاکستان کو بھارت کی برتری ختم کرنے کیلیے اس کے دوسرے ایٹمی دھماکے کے جواب میں مجبوراً ایٹمی دھماکہ کرنا پڑا۔ وہ دن اور آج کا دن پاکستان کیلیے ایٹمی طاقت بننا رحمت کی بجائے زحمت بن چکا ہے۔ وہی ایٹمی طاقت جس نے امریکہ کو عالمي لیڈر بنایا، پاکستان کیلیے اس پر فوج کشي کا بہانہ بن چکا ہے۔ پاکستان جسے ایٹمی طاقت بننے کے بعد مزید محفوظ ہوجانا چاہیے تھا اب مزید غیرمحفوظ ہو چکا ہے۔

اب تو امریکہ نے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے سے روکنے کیلیے پلاننگ بھی شروع کردی ہے اور اس کی پلاننگ میں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر فوجی آپریشن کے ذریعے کنٹرول کرنا بھی شامل ہے۔

پتہ نہیں کیوں عالمی طاقتوں کو پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی اتنی فکر دامن گیر ہے۔ کیا انہیں پاکستان کی سیکولر آرمی پر بھروسہ نہیں رہا۔ کیا انہیں جنرل مشرف کے ہاتھوں آرمی کو مذہبی رجحان رکھنے والے آفیسروں سے پاک کرنے کے منصوبے پر یقین نہیں ہے۔ لگتا ہے عالمی طاقتیں بھارت سمیت پاکستان کی ایٹمی صلاحیت سے بالکل خائف نہیں ہیں اور انہیں پورا یقین ہے کہ پاکستان کے پاس ابھی تک ایسی ٹیکنالوجی نہیں ہے جس کی مدد سے وہ اپنے اوپر حملے کا دفاع ایٹمی طاقت کے استعمال سے کرسکے۔ پاکستان اب ایٹمی طاقت بننے کے بعد زیادہ غیرمحفوظ ہو چکا ہے۔ پہلے پاکستان کو کمزور کرنے کیلیے اسے مزید ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی بات کی جاتی تھی اب اس پر حملے کی بات ہونے لگی ہے۔

سب سے پہلے تو ہم پاکستان کے اعلانیہ طور پر ایٹمی طاقت بننے کے حق میں ہی نہیں تھے۔ ہمارے خیال میں پاکستان کو اسرائیل کی لومڑی جیسی چال کی تقلید کرنی چاہیے تھی۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل کے پاس بڑی ایٹمی طاقتوں کے بعد سب سے زیادہ ایٹمی ہتھیار ہیں مگر اسرائیل نے ایٹمی طاقت بننے کا کبھی اعلان نہیں کیا۔ پاکستان کو بھی چاہیے تھا کہ بھارت کے مقابلے میں ایٹمی دھماکہ نہ کرتا مگر ردعمل اس طرح کرتا کہ ایٹمی دھماکہ نہ کرنے کے باوجود دنیا کو پاکستان کے ایٹمی طاقت ہونے پر یقین ہوجاتا۔ مگر کیا کیا جائے سیاست کا جس نے ایک گروپ کی شان بڑھانے کیلیے ایٹمی دھماکہ کرنا مناسب سمجھا اور پاکستان کے مقابلے میں اپنی ذات کو اولیت دی۔

اب جبکہ پاکستان ایٹمی طاقت بن چکا ہے تو پھر اسے اب دنیا کو یہ بھی بتانا پڑے گا کہ وہ اسے استعمال بھی کرسکتا ہے۔ خاص کر بھارت کو یہ ضرور باور کرانا چاہیے کہ اگر اس نے ہم پر حملہ کیا تو ہم اس کا جواب ایٹمی حملے سے دیں گے۔

امریکہ ہمارا پچھلے پچاس ساٹھ سالوں سے حلیف ملک رہا ہے اور جس کیلیے ہم اپنے ہی عوام کیخلاف اب نبرد آزما ہیں۔ امریکی کی خوشندودی کیلیے ہم نے طالبان کو دوست سے دشمن بنایا اور ان کی حکومت ختم کرنے کیلے یوٹرن لیا۔ پھر ہم نے اپنے ہی لوگوں کو امریکہ کے ہاتھوں اسلیے بیچا تاکہ ہم اس کے عتاب سے محفوظ رہ سکیں۔ اس کے باوجود اب بھی امریکہ پاکستان کی خیرخواہی کرنے کی بجائے اس کے ایٹمی اثاثوں کے غیرمحفوظ ہونے کے عذر کیساتھ اس پر حملہ کرنے کے پلان بنا رہا ہے۔

اب یہ ہماری حکومت پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح امریکہ کو اپنے منصوبے سے باز رکھتی ہے اور کس طرح اسے قائل کرتی  ہے کہ وہ ہمارے ایٹمی اثاثوں کے غیرمحفوظ ہونے کا ڈھنڈورا نہ پیٹے بلکہ ہماری آرمی جو امریکی اور برطانوی طرز تربیت کے تحت قائم ہے اس پر بھروسہ کرے اور اس کی صلاحیتوں پر شک نہ کرے۔