انتخابات میں جب کوئی ایک پارٹی واضح اکثریت حاصل کرکے حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہ ہو تو پھر آزاد امیدواروں کیساتھ ساتھ باغی ارکان اسمبلی کی بھی موج ہو جاتی ہے۔

 موجودہ انتخابات میں ریکارڈ تعداد میں آزاد ارکان منتخب ہوئے ہیں اور اب وہ جوق درجوق متوقع حکمران پارٹي میں داخل ہو رہے ہیں۔ اسی طرح اپنی پارٹی سے ناراض ارکان کو بھی اپنے غصے کے اظہار کا موقع مل رہا ہے اور وہ اپنا غصہ اپنی پارٹی کے اجلاس میں نکالنے کی بجائے بغاوت کرکے نکال رہے ہیں۔ کسی نے فارورڈ بلاک بنا لیا ہے، کسی نے مستقبل کی حکمران جماعتوں کے سربراہوں سے رابطے قائم کرلیے ہیں اور کسی نے اپنی وفاداریاں بدلنے کیلیے اپنی قیمت بھی لگا دی ہے۔

 جب سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو اکثریت حاصل ہوئی ہے کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کوئی نہ کوئی آزاد ارکان یا مسلم لیگ ق کا رکن اسمبلی ان پارٹیوں سے تعاون کا اعلان نہیں کرتا یا ان کے سربراہوں سے ملاقات نہیں کرتا۔ جو لوگ پہلے لوٹوں کو لعن طعن کرتے رہے اور انہیں بیوفائی کے طعنے دیتے رہے اب وہی حرکات کررہے ہیں جو ان کے مخالفین نے کیں۔

 بینظیر اور نوازشریف کے ادوار میں جب جب اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش ہوتی تو دونوں سربراہان اپنے اپنے ارکان کو لے کر مری کے مضافات میں روپوش ہو جایا کرتے تھے۔ اس کے بعد جب ریٹائرڈ جنرل مشرف نے نواز شریف حکومت کا تختہ الٹا تو پھر نواز شریف کی مسلم لیگ کے ارکان نے چوہدریوں کی سربراہی میں بغاوت کی اور مسلم لیگ ق بنا لی۔ ریٹائرڈجنرل اور ادیب احتشام ضمیر جو ضمیر جعفری کے بیٹے ہیں نے اب مسلم لیگ ق کو جتوانے کیلیے دھاندلی کا اعتراف بھی  کیا ہے۔ مسلم لیگ ق نے پانچ سال حکومت کی اور نواز شریف کی بھرپور مخالفت کی۔

 اب مسلم لیگ ق کے یہی ارکان حالات بدلنے پر چوہدریوں کو چھوڑ کر مسلم لیگ ن میں واپس آنے کیلیے پر تول رہے ہیں۔ حیرانی اس بات پر ہے کہ نواز شریف جنہوں نے اپنے دور میں فلورکراسنگ کا بل پاس کرکے ہارس ٹریڈنگ کو روکا تھا اب خود اس میں ملوث ہوچکے ہیں۔ ہوسکتا ہے اس وقت نواز شریف کے پاس لوٹوں کو ملا کر حکومت بنانے کے سوا کوئی چارہ نہ ہو مگر اس طرح تو وہ اپنی مردانگی کو داؤ پر لگا رہےہیں۔ مزہ تو تبھی آتا اگر مشکل وقت میں وہ اپنے اصولوں پر قائم رہتے۔ لیکن کیا کیا جائے پاپی پیٹ کا جو انسان کو بعض اوقات مردارکھانے پر بھی مجبور کردیتا ہے۔