ایک وقت میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن ایک دوسرے کی جانی دشمن تھیں مگر اپنے مشترک دشمن پرویز مشرف کی وجہ سے انہیں ایک دوسرے کے قریب آنا پڑا۔ یہ بھی ایک انہونی تھی۔

پھر حالات نے پلٹا کھایا اوران دونوں پارٹیوں کو مشترکہ حکومت بنانی پڑ رہی ہے۔ ابھی ان کی مشترکہ حکومت کی شروعات بھی نہیں ہوئی تھی کہ پیپلزپارٹی نے اپنی ایک دشمن پارٹی ایم کیو ایم سے اتحاد کا فیصلہ کرلیا۔ مسلم لیگ ن تو شاید کبھی بھی ایم کیو ایم سے اتحاد نہ کرتی مگر پیپلزپارٹی کی وجہ سے اسے ایم کیو ایم کو بھی برداشت کرنا پڑے گا۔ یہ دوسری انہونی ہے۔

اس سال کی بیوفوائیوں میں مسلم لیگ ق کے سینیٹرز کا فارورڈ بلاک، بلوچستان میں مسلم لیگ ق کے پارلیمانی لیڈر کی بیوفائی، امین فہیم کی پیپلزپارٹی سے بیوفائی، پیپلزپارٹی شیرپاؤ کی مسلم لیگ ق سے بیوفائی اہم ہیں۔ مگر ان سب سے اہم ایم کیو ایم کی مسلم لیگ ق سے بیوفائی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ق نے ایم کیو ایم کو پیپلزپارٹی سے اتحاد کی اجازت تو دے دی ہے مگر وزیراعظم کے الیکشن کیلیے  اپنا امیدوار لانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس طرح ایم کیو ایم کو وعدے کےمطابق پیپلزپارٹی کے امیدوار کو ووٹ دینا پڑے گا۔ مسلم لیگ ق اس بیوفائی کو کس زمرے میں لے گی یہ صرف چوہدری ہی جانتے ہیں۔ چوہدری برادران مشرف دور میں اپنی ذات کی خاطر دوسروں کی غلط ملط باتیں ماننے کے اسقدر عادی ہوچکے ہیں کہ انہیں ایم کیو ایم کی یہ بیوفائی بھی بری نہیں لگی۔

سینیٹروسیم سجاد نے بھی سینیٹ کی سیٹ سے استعفیٰ دے دیا ہے اب انہوں نے کس کیساتھ بیوفائی کرنے کا پلان بنایا ہے یہ ایک دو دن میں پتہ چل جائے گا۔

ان بیوفائیوں کے دور میں لگتا ہے صرف چوہدری برادران اور ان کی برادری ہی حزب اختلاف کی سیٹوں پر بیٹھی نظر آئے گی۔ اس ساری سیاست کی اکھاڑ پچھاڑ میں سب سے زیادہ نقصان چوہدریوں کو ہوا ہے۔ مگر وہ پچھلے پانچ سال میں اتنا کچھ کما چکے ہیں کہ وہ اگلے پانچ سال بڑے آرام سے دشمن اتحادی جماعتوں کی اکھاڑ پچھاڑ کے مزے لوٹ سکتے ہیں۔

واقعی سچ ہے سیاست میں کچھ بھی بعید نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا کھیل ہے جس میں ریاکاری، بیوفائی، دھوک، لوٹ مار، قتل و غارت سب کچھ جائز ہے۔ اسی لیے سیاست کرنا عام معنوں میں دھوکہ اور فراڈ میں شمار ہوتا ہے۔

اب جب ہر کوئی خودغرضی کی انتہاؤں کو چھو رہا ہے تو پھر یہ قیاس کرنا مشکل نہیں رہا کہ مستقبل کی حکومت قومی خدمت کی بجائے لوٹ کھسوٹ کی طرف زیادہ توجہ دے گی۔ لیکن ایک بات یاد رہے کہ مہنگائی نے عوام کے صبر کی انتہا کر رکھی ہے اور اب شاید عوام حکمرانوں کی مزید عیشایوں کو کم ہی برداشت کریں۔

سیاست کی اس اتھل پتھل میں اب کون لوٹے ہیں اس کا فیصلہ کرنا آسان نہیں رہا۔ ایم کیو ایم نے اپنے مفاد کی خاطر قومی اتفاق کے نام سے مسلم لیگ ق کو چھوڑ دیا ہے۔ مسلم لیگ ق کے سینیٹرز، قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین فارورڈ بلاک میں شامل ہو کر اپنے مفاد کو پارٹی کے مفاد پر ترجیح دے چکےہیں۔

اس سارے کھیل کو پرویز مشرف کس انداز سے دیکھ رہے ہیں اور کیا اب ایم کیو ایم ان کا ساتھ دے گی۔ ججوں کی بحالی پر ایم کیو ایم کا اب کیا موقف ہوگا۔ پرویزمشرف کی آئین میں کی گئی ترامیم اور پی سی او پر الطاف حسین اب کیا موقف اخیتار کریں گے یہ آنے والے دنوں میں دلچسپی کے موضوع ہوں گے۔