دوغلہ پن ہماری زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ ہر آدمی کو دیکھیں وہ جس کی منہ پر تعریف کررہا ہوگا اگلے لمحے اسی کو گالیاں دے رہا ہوگا۔ ایک جگہ پر وہ اسلام کو دنیا کا بہت بڑا مذہب قرار دے رہا ہوگا اور دوسري جگہ پر اپنے مفادات کی خاطر اسی مذہب میں کیڑے نکال رہا ہوگا۔ چند سال پہلے جواس نے عہد و پیما کیے ہوں گے وہ بعد میں انہیں غلطی کہ کر ردی کی ٹوکری ميں پھینک دے گا اور نئے عہد و پیما کرنے لگے گا۔

ہماری سیاسی پارٹیاں بھی چونکہ ہمارے ہی معاشرے میں پلنے والےايسے دوغلے پن کے شکار لوگوں کی سربراہی میں سفر طے کررہی ہیں اسلیے اب ان کا بھی وطیرہ بن چکا ہے کہ وہ ایک وقت میں متضاد باتیں کہنے میں بھی کوئی شرم محسوس نہیں کررہیں۔ ایک جگہ پر سیاسی پارٹي کا لیڈر ایک بات کر رہاہے تو دوسري جگہ پر اسی سیاسی پارٹي کا دوسرا لیڈر اس کے بالکل الٹ بات کررہا ہے۔ عوام ہے کہ دونوں کی باتوں کی طرف دھیان نہیں دے رہی اور اپنی پیٹ پوچا کی خاطر دن رات محنت مزدوري ميں لگي ہوئي ہے۔

مسلم لیگ نواز کو دیکھیے ایک طرف وہ محب الوطنی کی باتیں کرتے ہیں تو دوسری طرف اپنی جان بچانے کیلیے جلاوطنی قبول کرلیتے ہیں۔ جب بات کرتے ہیں تو اپنے حقوق کی بجائے عوام کے حقوق کی بات کرتے ہیں لیکن جب عمل کرتے ہیں تو سب سے پہلے اپنے حقوق کا خیال رکھتے ہیں اپني حکومتوں کے دوران بزنس کا دائرہ وسيع کرليتےہيں۔ ایک طرف خود سپریم کورٹ پر حملہ کرتے ہیں اورجب ان کا مخالف چیف جسٹس کو غیر فعال بناتا ہے تو وہ اس کی مذمت کرتے ہیں۔ وہ اپنے دور میں مخالفین کو تگنی کا ناچ نچاتے ہیں اور اب اپنے مخالفین کے ایسے ہی اقدامات کو غلط قرار دیتے ہیں۔ یہ وہی مسلم لیگ نواز ہے جب حکومت میں ہوتی ہے تو دوسروں کی وفاداریاں خریدتی ہے لیکن جب حکومت سے باہر ہوتی ہے اور اس کے لیڈر پارٹی کو چھوڑ کر مخالفین سے جاملتے ہیں توانہیں دھوکے باز اور غدار کا نام دیتی ہے۔

پیپلز پارٹی کی ساری عمر آمریت کیخلاف جدوجہد کرتے ہوئے گزری ہے اور اب یہی پیپلزپارٹی آمریت کے ساتھ ڈیل بنارہی ہے۔ اسی آمریت نے بینظیر کو خود ساختہ جلاوطنی پر مجبور کیا اورسويزکيسزز ميں الجھائے رکھا، یہی بینظیر اسی حکومت سے مراعات کے بدلے اسے سپورٹ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ اس کوشش میں بھٹو خاندان کو یہ بھی پرواہ نہیں ہے کہ اس  کے کارکن ڈیل کے خلاف ہیں۔ اگر پیپلز پارٹی کسی ترقی یافتہ ملک میں ایسی صورتحال سے دوچار ہوتی تو کسی بھی ڈیل سے قبل ضرور پارٹی کنوینشن بلاتی اور عوام کی رائے کا احترام کرتی۔ لیکن چونکہ پاکستانی عوام اور پیپلز پارٹی کے کارکن گونگے بہرے ہیں اسلیے بینظیر نے ان سے مشاورت کی ضرورت ہی نہیں سمجھی۔ ایک طرف پی پی پی کی سربراہ آمریت کیساتھ ڈیل کی باتیں کررہی ہے تو دوسری طرف اسی جماعت کی قیادت آمریت کے خلاف بول رہی ہے اور یہاں تک کہ بی بی کے غیرملکی انٹرویو میں کہی گئ باتیں ہی ماننے کو تیار نہیں ہے۔

جنرل صدر پرویز مشرف ایک وقت تھا بی بی کے بارے میں بات تک کرنے کو تیار نہیں تھے۔ انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہ دیا اور کرکے بھی دکھایا کہ بینظیر انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتیں۔ انہوں نے ملکی خزانہ لوٹنے والوں کي تذلیل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اب وہی پرویز صاحببقول ان کے لٹیری اور کرپٹ لیڈر کیساتھ ملکر حکومت کرنے کو تیار ہیں۔ اب وہ کہ رہے ہیں کہ روشن خیال اور اعتدال پسند طاقتوں کو انتہا پسندوں کیخلاف اکٹھے ہوجانا چاہیے۔ جو لیڈرشب پہلے کرپٹ تھی اب وہ ان کی پارٹنر ہوگی۔ جنرل صاحب یہ تک نہیں سوچ رہے کہ کرپٹ کا ساتھی بننے کے بعد اپنے کرپٹ ہونے کا کیسے انکار کرسکیں گے۔ جنرل صاحب نے حکومت پر قبضہ کرنے سے پہلے سب سے پہلے جو قانون پاس کیا اس کی رو سے کوئی بھی شخص دو بار سے زیادہ ملک کا وزیراعظم نہیں بن سکتا اور اس قانون کی بنیاد بینظیر اور نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کیلیے نااہل قرار دینا تھا۔ اب پرویز صاحب کو خود اس قانون میں ترمیم کرنے کیلیے ایک اور آرڈیننس جاری کرنا پڑے گا تاکہ بینظیر صاحبہ تیسری بار ملک کی وزیراعظم بن سکیں۔

ایم ایم اے نے امریکہ مخالف جذبات کو کیش کرایا اور اسطرح پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار مذہبی بنیادوں پر اتنی سیٹیں جیتیں کہ وہ حزب اختلاف کی کرسی پر بیٹھ گئي۔ ایم ایم اے نےجنرل پرویز مشرف کی بھرپور مخالفت کی مگر بعد میں انہی کا ساتھ دے کہ قانون میں وہ ترمیم پاس کرادی جس کی وجہ سے پارلیمانی نظام صدارتی نظام میں بدل گیا۔ ہمارا اب تک یہی خیال رہا ہے کہ ایم ایم اے کی نیت یہ تھی کہ وہ اس ترمیم کی منظوری کے بعد جنرل صاحب کی وردی اتروا دے گی مگر بعد کے حالات نے یہی ظاہر کیا ہے کہ ایم ایم اے حکومت کی بی ٹيم تھی۔ ایک طرف ایم ایم اے نے امریکہ مخالف لوگوں کے ووٹ لیے اور دوسری طرف جنرل پرویز مشرف کو ایک دفعہ بھی نہیں ٹوکا کہ وہ مسلمانوں کو دہشتگرد قرار دے کر امریکہ کے حوالے نہ کریں۔ ایم ایم اے نے حدود آرڈیننس کی ترمیم کیخلاف بھرپور مہم چلائي اور یہاں تک کہ استعفے دینے کا اعلان کردیا مگربعد میں وہ اپنے وعدے سے مکر گئے۔ ہم نے اپنی زندگی میں پہلی دفعہ کسی مذہبی تنظیم کو عوامی پلیٹ فارم پر اپنے وعدے سے پھرتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس وعدہ خلافی پر سوائے حافظ حسین احمد کے کسی کو ذرہ برابر بھی شرم نہیں آئی۔

ایم کیو ایم نے جاگریرداروں اور وڈیروں کی مخالفت میں اپنی تحریک کا آغاز کیا اور آمریت کی بجائے جمہوریت کو اپنا نصب العین قرار دیا مگر جب مزاحمت کا وقت آیا تو ایم کیو ایم نے ہتھیار ڈال دیے اور وہ انہی جاگیرداروں، وڈیروں اور آمروں کے ٹولے ميں شریک ہوگئ جن کی وہ مخالفت کیا کرتی تھی۔ ایم کیو ایم کرسی کی ہوس میں اس قدر اپنے نظریات سے بھٹک گئ کہ وہ بگٹی کی موت اور چیف جسٹس کی معطلی کیخلاف حکومت سے الگ نہ ہوسکی۔ اس نے دونوں مواقع پر اسی حکومت پر تنقید کی جس کا وہ حصہ ہے لیکن وہ کوئی پختہ سٹینڈ لینے میں ناکام رہی۔ ایم کیوایم کے سبربراہ کے اس دوغلے پن کا کوئی جواب نہیں کہ وہ سربراہ ایک پاکستانی لسانی تنظیم کے ہیں اور حکومت میں شامل بھی ہیں مگر پھر بھی ملک سے باہر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ انہوں نے اس ملک کی شہریت بھی لے لی ہے لیکن پھر بھی دعویٰ ہے کہ وہ پاکستانی ہیں۔

عوام نے جب دیکھا کہ ان کے لیڈر دوغلے پن کا شکار ہیں تو انہوں نے بھی ہرمسئلے پر خاموشی اختیار کرلی ہے۔ ایک طرف عوام کہتے ہیں کہ انہیں انصاف کے حصول ميں دقت ہورہی ہے اور دوسری طرف جب کوئی انہیں انصاف دلاتے ہوئے غیرفعال ہوجاتا ہے تو وہ پھر بھی دور سے تماشا دیکھتے رہتے ہیں۔ مہنگائی سے ان کا دم گھٹا جارہا ہے، لوڈشیڈنگ نے ان کی زندگیوں کو اجیرن بنا رکھا ہے مگر عوام ہیں کہ یہی آس لگائے بیٹھے ہیں کہ کوئی آۓ اور ان کے مسائل حل کرے، وہ خود کچھ نہیں کریں گے۔ ہم دوسروں کو تو یہ الزام دیتے ہیں کہ وہ پاکستان کیساتھ تعلقات میں ڈبل سیٹینڈرڈ رکھتے ہیں مگر اپنے دوغلے پن کو بھول جاتے ہیں۔ اس طرح کا دوغلہ پن جسے دوسرے لفظوں میں منافقت کہا جاتا ہے اس حد تک خظرناک ہوتا ہے کہ ہمارے نبی صلعم نے بھی منافق کو سب سے زیادہ خطرناک قرار دیا ہے اور اس سے بچنے کی تلقین کی ہے۔