کبھی کبھی حکومت اپنے عمل کو جائز قرار دینے کیلیے بہت ہی بھونڈے قسم کے دلائل دیتی ہے۔ دو دہائیاں قبل جب حکومت نے مٹی کے تیل کی قیمت پٹرول سے زیادہ بڑھائی تو دلیل یہ دی گئی کہ مٹی کے تیل کی قیمت زیادہ بڑھانے سے پٹرول میں مٹی کے تیل کی ملاوٹ روکی جا سکے گی۔ ان عقل کے اندھوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اس طرح بیچارے غریبوں کی غربت اور  بڑھے گی۔ چہ جائیکہ حکومت پٹرول میں ملاوٹ کو روکنے کی کوشش کرتی اس نے مٹی کے تیل کی قیمت بڑھا کر آسان راستہ اپنایا اور اس منحوس روایت کی تقلید ابھی تک جاری ہے۔

یہ بات ہمیں آج اس وقت یاد آئی جب ہم نے اخبار میں ڈیزل کی قیمت بڑھانے کے استدلال میں یہ پڑھا کہ اس طرح ڈیزل کی سمگلنگ روکی جا سکے گی۔ بیرونی جمہوری طاقتوں کے غلاموں کیلیے سمگلنگ روکنا تو ناممکن ہے اسلیے ڈیزل کی قیمت بڑھا دیں گے چاہے اس کے بدلے مہنگائی اور بڑھ جائے۔

ابھی پچھلے دنوں جنرل مشرف نے دالیں مہنگی ہونے کے جواب میں مرغی کھانے کو کہا اور یہ نہیں سوچا کہ ایک کلو دال سے پندرہ آدمی پیٹ بھر لیتے ہیں مگر ایک کلو مرغی سے تین آدمی بھی پیٹ نہیں بھر سکیں گے۔ برڈ فلو کی وجہ سے مرغی کا گوشت چونکہ دالوں سے سستا ہے تو صدر نے مرغی کھانے کی تجویز دے ڈالی۔

شوکت عزیز نے بنیے کی طرح عوام کو بنکوں سے آسان قرضے دلا کر انہیں غیرضروری تعیش کی چیزیں خریدنے پر مائل کیا۔ بعد میں یہی سامان عوام کیلیے بوجھ بن گیا اور بینکوں نے ان سے گاڑیاں واپس لینا شروع کردیں۔ اس وقت شوکت عزیز پاکستان کی میعشت کی ترقی کو ملک میں سیل فونوں اور موٹرسائیکلوں کی بہتات سے ناپتے رہے۔ اب شوکت عزیز کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے جب معاشی بحران پیدا ہوا تو وہ ملک سے ہی بھاگ گئے ہیں۔

قبائلی علاقوں پر بیرونی جمہوری طاقتوں کے حملوں کو جنرل مشرف اپنے سر لیتے رہے اور ہمیشہ انہوں نے اتحادیوں کے طیاروں کی بمباری کو ماننے سے انکار کرتے رہے۔ یہ انہی کے جھوٹ تھے جو ان کی حواری مسلم لیگ ق کے ہارنے کا سبب بنے۔

اس طرح کے غلط دلائل تب تک کام کرتے رہیں گےجب تک میڈیا کی آواز گاؤں گاؤں نہیں پہنچ جاتی۔ اب تو یہ حال ہے کہ ادھر حکومت نے بونگی ماری نہیں اور ادھر میڈیا نے اسے ننگا کیا نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ حکومتی سیاستدان اتنے ڈھیٹ ہو چکے ہیں کہ وہ میڈیا پر بھی اپنی غلطی ماننے کو تیار نہیں ہوتے۔ ابھی کل 50 منٹ کے پروگرام میں سامعین اور عوام کی اسی فیصد اکثریت سزائے موت کیخلاف ووٹ دے رہی تھی مگر حکومتی ایم این اے فرزانہ راجہ اور انسانی حقوق کی علمبردار حنا جیلانی ڈھٹائی کیساتھ سزائے موت ختم کرنے کی حمایت کرتی رہیں کیونکہ انہیں یہی کرنے کا آرڈر ملا ہوا تھا۔ حالانکہ پی پی پی کی نمائندہ  ہونے کی وجہ سے فرزانہ راجہ کو عوامی رائے کی حمایت کرنی چاہیے تھی۔