ہم نے جب گھر کا سامان منتقل کرنا تھا تو ایک ایجنسی سے بات کی جس نے دو آدمی ٹرک لوڈ کرنے کیلیے بھیج دیے۔ ان میں ایک اسلامی سکول کی ریٹائرڈ استانی کا عربی بیٹا بھی تھا۔ اس سے جب ہم نے بات کی کہ گھر کو پینٹ کرنا ہے تو اس نے ہمیں اپنے جال میں پھنسا لیا۔ کہنے لگا مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہے اور میں گھر کا پینٹ اپنا گھر سمجھ کر کروں گا۔ اس سے پندرہ سو ڈالر میں سودا ہوا اور ہم نے اس پر بھروسہ کر کےگھر کی چابی اس کے حوالے کی اور دوسرے گھر چلے گئے۔ یہ ہماری پہلی غلطی تھی کہ ہم نے ایک مسلمان اور وہ بھی عربی پر بھروسہ کیا۔

دوسرے دن ہی اس نے ہمیں فون کیا اور بولا ایک دو جگہ پر پینٹ زیادہ لگے گا اسلیے سات سو ڈالر کا مزید بندوبست کر لو۔ ہم نے اسے کہا کہ یہ تمہیں پہلے معلوم ہونا چاہیے تھا اور اب جب کہ تم کنٹریکٹ کر چکے ہو تو کام کو اسی میں پورا کرو۔ بات بگڑ گئی اور ہم نے اسے کہا جس جگہ کا تم ذکر کر رہے ہو اس پر ایک ہی دفعہ پینٹ کر دو۔ ہماری دوسری غلطی یہ تھی کہ ہم نے رجسٹرڈ کمپنی کی بجائے ایک عام آدمی سے کام لینے کی کوشش کی اور لکھت پڑھت بھی نہیں کی۔ اس غلطی کی نشاندہی بعد میں ہماری فیملی نے کی۔ لیکن مسئلہ وہی ہے کہ جب آدمی اعتبار کر لیتا ہے تو پھر کوئی احتیاط نہیں کرتا۔

اس سے اگلے دن جب ہم گھر دیکھنے گئے تو اس نے ہمارے ہاتھ میں دو بل پکڑا دیے کہنے لگا یہ سامان اس نے خریدا ہے۔ ہم نے اسے کہا کہ ہماری مرضی کے بغیر اسے سامان نہیں خریدنا چاہیے تھا۔ وہ بولا وہ سمجھا جو ایڈوانس ہم اسے دے کر گئے تھے وہ سامان کیلیے تھا حالانکہ سامان اسے ہم پہلے ہی خرید کر دے چکے تھے۔

اس سے اگلے دن اس نے پھر فون کیا اور بولا ایک دیوار پر جہاں بچوں نے اپنے بچپن میں نقش و نگار بنا رکھے تھے زیادہ دفعہ پینٹ کرنا پڑے گا۔ ہم نے کہا کہ ایک ہی دفعہ پینٹ کرو اور باقی ہم خود نپٹ لیں گے۔

آخری دن اس نے ہمیں فون کیا کہ کام نوے فیصد ہو چکا ہے اور وہ چند دنوں کیلیے باہر جا رہا ہے اس لیے ہم اس کو آج مل لیں۔ ہم اس سے ملنے گئے تو اس نے مزید سامان کا بل ہمارے ہاتھ میں تھما دیا۔ ہم نے اسے یاد دلایا کہ سامان ہماری مرضی کے بغیر نہیں خریدنا چاہیے تھا۔ جناب وہ تو مرنے مارنے پر تل گیا۔ اوپر سے جب ہم نے اسے سامان کی رسید چار دن پرانی دکھائی تو وہ کہنے لگا کہ اگر ہم نے اسے پوری رقم ادا نہ کی تو وہ گھر کی ساری دیواریں ہتھوڑے سے توڑ دے گا۔ ہم چونکہ اس علاقے سے ہجرت کر چکے تھے اور مزید کسی بکھیڑے میں نہیں پڑنا چاہتے تھے اسلیے اس کی منہ مانگی رقم ادا کی اور اسے چلتا کیا۔

اس کی روانگی کے بعد پتہ چلا کہ وہ گھر سے ایک دو چیزیں بھی چرا کر لے جا چکا ہے جو ہمارے لیے ویسے بیکار تھیں۔

ہم اگر چاہتے تو اس کیساتھ جھگڑ سکتے تھے مگر تین چار سو ڈالر کی خاطر یہ منہ ماری گھاٹے کا سودا سمجھ کر خاموشی میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ جب ہم پہلے دن اس رامی نامی عربی کیساتھ سودا کر کے گھر لوٹے تو سب نے اسے رامی کی بجائے حرامی ہی بلایا اور اس نے ثابت کر دیا کہ وہ واقعی حرامی ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ ہم موجودہ دور کے مسلمان اور خاص کر عربی دنیا میں رسوا ہو رہے ہیں۔ اگر ہمارے یہی اطوار رہے تو اجمل صاحب کی خواہش کبھی پوری نہیں ہو گی۔

چار سو ڈالر کے نقصان سے ہم نے مندرجہ ذیل سبق سیکھے۔

کسی پر آنکھیں بند کر کے بھروسہ مت کرو۔ اس اصول پر عمل کرنا ہمارے لیے ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔

چند ڈالر بچانے کیلیے کسی پرائیویٹ شخص کیساتھ کنٹریکٹ مت کرو۔

جس سے بھی کنٹریکٹ کرو اس کا کریڈٹ ضرور چیک کر لو۔

جو بھی کام کرواؤ اپنی نگرانی میں کرواؤ۔