اجمل صاحب نے ہماری تحریر “قرآن کی سمجھ” کا تفصیلی جواب لکھ کر نہ صرف اپنا فرض پورا کیا بلکہ ان قارئین کی خواہش پوری کر دی جنہوں نے ہماری رائے کی بھرپور مخالفت کی۔ ہم اس بحث کو یہیں سمیٹنا چاہتے تھے مگر قارئین کے بتصرے اور اجمل صاحب کی تحریر پڑھنے کے بعد بھی ہماری پیاس نہیں بجھی اور اب بھی ہم چند سوالات کے جوابات کے متلاشی ہیں۔
ہماری تحریر کے جواب میں جتنے بھی تبصرے ہوئے اور لکھا گیا ان کا زمینی حقائق سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ خیال آرائیاں ہیں یعنی اگر ایسا ہو تو آئیڈیل ہو گا جب کہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ دنیا کے مسلمانوں کی حالت تو دوسری طرف ہم پاکستانی مسلمانوں میں ایک فیصد بھی ایسے نہیں ہوں گے جنہوں نے قرآن ترجمے کیساتھ بڑھا ہو گا۔ ابھی کل ہی ایک آدمی کے ثواب کیلیے قرآن خوانی میں شامل تھے۔ سب نے قرآن عربی میں پڑھا اور ہمارے پوچھنے پر ایک بھی آدمی ایسا نہیں تھا جس نے اقرار کیا ہو کہ جو اس نے پڑھا اس کی اسے سمجھ بھی آئی ہو۔
ایک سوال تو یہ ہے کہ جتنے بھی قارئین نے ہماری تحریر کی مخالفت کی کیا انہیں قرآن بمع ترجمہ پڑھایا گیا تھا اور کیا انہوں نے اپنے بچوں کو قرآن بمع ترجمہ پڑھایا یا پھر پڑھا رہے ہیں۔ یہ سوال ہم اپنے اگلے سروے میں شامل کر رہے ہیں اور دیکھتے ہیں کم از کم قارئین میں سے کتنے فیصد قرآن کو عربی میں پڑھتے ہوئے جانتے ہیں کہ وہ کیا پڑھ رہے ہیں۔
مسلمانو جذبات کی رو میں بہ کر مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ کہتے ہیں کہ بیوقوف سے بھی آدمی عقل کی باتیں سیکھ سکتا ہے۔ ہم نے بھی کوشش کی مگر یہ ہماری بیوقوفی یا کم عقلی سمجھ لیں کہ ہم آپ تک وہ پیغام نہیں پہنچا سکے جو ہم آپ تک پہنچانا چاہ رہے تھے ۔ سب نے جذباتی تبصرے کر کے اپنا حق مسلمانی تو ادا کر دیا مگر مسئلہ وہیں کا وہیں ہے یعنی کیا پاکستانی مسلمان قرآن پڑھتے ہوئے جانتے ہیں کہ وہ کیا پڑھ رہے ہیں؟
اجمل صاحب کی تحریر پڑھنے کے بعد بھی تشنگی باقی ہے اور امید ہے وہ ہمارے مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دے کر ہمیں مزید سیکھنے کا موقع دیں گے۔
اگر عربی زبان سیکھنا مشکل نہیں ہے تو پھر خصوصی طور پر ہم پاکستانی مسلمانوں اور بالخصوص غیر عربی مسلمانوں کو عربی زبان کیوں نہیں آتی؟ کہاں لکھا ہے کہ مسلمان کیلیے عربی زبان سیکھنا فرض ہے یعنی جسے عربی نہیں آتی وہ مسلمان نہیں ہے؟ قرآن کو ترجمے یعنی اردو میں پڑھنے کی بات کر کے ہم نے کوئی نئی بات نہیں کی بلکہ بمع اجمل صاحب تمام قارئین نے اعتراف کیا ہے کہ قرآن کے تراجم مارکیٹ میں پہلے سے موجود ہیں جو ایک سے زیادہ مسلمانوں نے کئے ہیں۔ اس لیے قرآن کا ترجمہ اپنی زبان میں پڑھنے سے قرآن میں تبدیلی نہیں آجائے گی اور اگر ایسی بات ہوتی تو اب تک قرآن بدل چکا ہوتا۔ بلکہ ہم تو کہتے ہیں کہ جسے عربی نہیں آتی وہ قرآن خوانی یا اس طرح کے مواقع پر قرآن عربی میں پڑھنے کی بجائے اس کا ترجمہ پڑھے تا کہ ایصال ثواب کیساتھ ساتھ اسے پتہ بھی چلے کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے۔ قرآن کو عربی میں پڑھنے کی بجائے اس کا ترجمہ پڑھنے میں کیا قباحب ہے؟
قرآن اپنی زبان میں پڑھنے کے نتیجے کی مثال اجمل صاحب نے ترکی کے کمال اتا ترک کی دی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اتا ترک انقلاب کی بنیاد قرآن اپنی زبان میں پڑھنا نہیں تھی بلکہ جب مسلانوں کو جنگ عظیم دوم میں شکست ہوئی تو فاتحین نے مسلمانوں کو مستقبل میں پھر طاقت پکڑنے سے روکنے کیلیے اپنا نمائندہ ترکی کا حکمران بنا دیا جو دہریہ تھا۔ اس نے ترکی سے اسلامی نظام ختم کر کے سیکولرازم نافذ کر دیا اور اسی سیکولرازم کی بنیاد پر اس نے تمام اقدامات کئے جن کا احاطہ اجمل صاحب نے اپنی تحریر میں کیا ہے۔ سوال یہ ہے کیا ترکی میں اسلامی نظام کا خاتمہ صرف قرآن اور نماز اپنی زبان میں پڑھنے سے ہوا؟
ہم پھر آخر میں قارئین کی توجہ زمینی حقائق کی طرف دلاتےہوئے اپنا نقطہ نظر واضح کرنے کی آخری کوشش کرتےہوئے اپنا سوال دوبارہ دہراتے ہیں۔ بالخصوص پاکستانی اور عمومی طور پر غیر عربی مسلمانوں میں کتنےفیصد ایسے ہیں جو قرآن پڑھتے ہوئے جانتے ہیں کہ وہ کیا پڑھ رہے ہیں؟ اگر ان کی اکثریت قرآن کی سمجھ نہیں رکھتی تو پھر اس کا آسان اور قابل عمل حل کیا ہے؟ خدارا اس حل کی بات مت کیجئے گا جو صرف آئیڈیل ہو اور جس پر پچھلی کئی صدیوں سے عمل نہ ہو رہا ہے۔
12 users commented in " ہاں واقعی ایسا ہے "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackمسٹر افجل تمہاری تحریروں کا مقصد بس اپنے بلاگ پر تبصرے کی تعداد بڑھانا ہے لیکن خدا واستے ٹکوں کے واسطے قرآن کی بےحرمتی نہ کرو اور میں بلاگروں سے درخواست کرونگا کہ آپ کو آپ کے حال پر چھوڑ دیں اور تبصروں کی تعداد بڑھانے کا آپکا مقصد جس کے تحت آپ نے اللہ اور کلام اللہ کی بے حرمتی کی ہے آپکی پچھلی تحریر جب میں نے پڑھی تھی اس پرکوئ تبصرہ نہ ہوا تھا لیکن میں آپکا مقصد وہیں سے تاڑ گیا اب آپکے اعلان نبوت کا انتظار ہے
جب کوئی بھی انسان اپنے آپ کو ُعقل کل، سمجنا شروع کر دے اور اس پہ اصرار کرے اور بضد ہو کہ باقی بھی یہ بات تسلیم کریں ۔ تو سمجھ لیجئیے کہ وہ اصل رستے سے بھٹک گیا ہے
افضل صاحب!
ماضی میں بھی لوگ بغیر جانے بوجھے اس طرح کے اقدام پہ اڑے اور اپنی عقل فہم و ادراک و دانش کو ہی عقل کل سمجھتے ہوئے دین الہٰی سے بھٹکے اور آخر کار نبوت کے جھوٹے دعویداربن کر ہمیشہ کے لیے لعین قرار پائے۔ اس میں ایک مثال مرزا قادیان کی ہے۔ اور خدا نہ کرے آپ اپنے معمولی استدلال کی پزیرائی نہ ملنے پہ مزید اس رستے پہ آگے بڑہیں ۔ اگر آپ کو کوئی مزھبی الجھن ہے تو کسی مستند عالم سے تشفی فرمائیں۔
جو لوگ آپ کا بلاگ پڑھ کر آپ کو جواب لکھ سکتے ہیں۔اول تو وہ آیات قرآنی کا مفہوم سمجھتے ہیں۔ کیونکہ قرآن کریم کی اکثر تلاوت کرنے سے یات کا مفہوم زبانی ازبر ہو جاتا ہے اس میں عربی مکمل طور پہ جاننے کی بھی پابندی نہیں ۔ بعین اسی طرح جس طرح قرآن کریم مزید مشق سے ازبر ہو جاتا ہے۔
مثلاً ہر جگہ اردو کی بورڈ میسر نہ ہونے کی وجہ سے۔ میں نے اردو تحاریر ہمیشہ لاطینی کی بورڈ سے لکھی ہیں اور مجھے علم ہے کہ کونسے لاطینی زبان کے۔ ُ کی بورڈ ، کی مونسی ُکی، کو دبانے سے اردو کا کونسا حرف لکھا جائے گا۔ اور غالباً باقی کافی لوگ بھی سی طرح انگلش کی بورڈ سے ہی اردو لکھتے ہونگے۔ اگر کچھ مشق کے بعد ایسے کاموں پہ عبور حاصل کر لتے ہیں تو کیا وہ کتاب جس پہ ہماری(مسلمانوں کی) اس دنیا اور اُس دنیا کا انحصار ہے کیا اسکے بارے میں ہم نہیں جان سکتے؟۔ یہ الگ بات ہے کہکوئی جان بوجھ کر ہی نہ جاننا چاہے تو ایسے فرد کے لئیے دعا ہی کی جاسکتی ہے ۔ کیونکہ پھر تو وہ اپنی علاقائی زبان میں بھی اللہ سبحان و کریم کے کے کالم کریم کے بارے میں کچھ نہیں جاننا چاہے گا۔ اس لئیے جن کے پاس اللہ نے کچھ معمولی سا بھی علم عطا کر رکھا ہے وہ لازمی طور پہ انہوں نے کبھی نہ کبھی قرآن کریم ترجمے کے ساتھ ضرور پڑھا ہوگا۔کیونکہ کہ علم آتے ہی علم جستجو پہ ابھارتا ہے اور یہ ہو نہیں سکتا کہ مسمان ہونے کا دعواٰہ کرنے والے علم و استطاعت رکھتے ہوئے۔ اللہ سبحان و تعالٰی کے کلام کریم کو سمجھنا نہ چاھیں ۔
اگ تو آپکا سوال ہی اور آپ اسلام کے بارے میں جاننے کی بات کرتے ہیں کہ علاقائی زبانوں میں اسلام کی تبلیغ تشریح کی جاسکتی ہے تو جواب یہ ہے کہ اسلام کی کسی بھی زبان میں تبلیغ و تشریح کی جاسکتی ہے۔ مگر اسلامی عبادات نماز حج وغیرہ کے لئیے انکا عربی میں ادا کرنا لازمی شرط ہے ۔ اور اس میں ایں آں یا ہچر مچر کی اجازت نہیں ۔ اگر آپ پھر بھی سوال اٹھاتے ہیں کہ کیوں نہیں؟ تو گزارش ہے کہ جسطرح مسلمان ہونے کے لئیے کچھ شراط ہیں کہ اسکے بغیر کوئی فرد مسلمان نہیں ہو سکتا اسی طرح اسلامی عبادات میں عربی شرط ہے۔۔ اگر آپ بحث برائے بحث کرنا چاہیں تو یہ الگ بات ہے ۔ کیونکہ اجکل تو وہ لوگ ببھی مل جاتے ہیں کہ بتاؤ خدا کس نے دیکھا ہے یا نعوذ باللہ خدا سے پہلے کون تھا۔ہر بات کو صرف اپنے عقلی استدلال سے نہیں ناپنا چاہئیے کہ بھٹکنے کا اندیشہ رہتا ہے ۔
آپ سے گزارش ہے کہ اس بحث کو یہیں بند کر دیں۔اورجسجمہورکو آپ بھی مانتے ہیں اسی جمہور کے تحت آپ کی اقلیتی سوچ ( کیونکہ آپ جانتے ہیں اور اعتراف کر چکے ہیں کہ کوئی ایک قاری بھی آپ سے متفق نہیں ہوا) اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ سے اکثریت متفق نہیں اور اکثریت کو آپ رنج اور ٹھیس پہنچی ہے ۔ تو آپ بردباری سے کام لیتے ہوئے یہ دونوں تحریریں اپنی سائٹ سے ہٹا دیں۔ ہم سب آپ کے لئیے دئا کریں گے۔
دعا گو
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین
افضل بھای،
آپکی بات صحیح ہے کہ ھمیں قرآن کو سمجھ کر پڑھنا چاہیے۔
اور یہ ھماری سستی ہے کہ ہم نے دنیاوی فواید کے لیے انگریزی تو سیکھ لی اور سیکھنے میں کبھی ہمت نا ھاری اور آج بھی کوشش مین ھون کہ انگریزی مین مہارت حاصل ھوجاے۔ مگر ایمانداری کی بات ہے، قرآن سمجھنے کے لیے عربی سیکھنے کی کبھی کوشش نہیں ک۔۔
میری مادری زبان اردو ہے، مگر مجھے انگریزی سیکھنے میں کوی عار نہیں تو مجھے عربی سیکھنے میں کیوں۔
میرے خیال میں اس بحث کے دو حصے ہیں ایک تو یہ کہ ہر مذہب کی ایک پہچان ہے، ایک شناخت ہے، ایک آئڈنٹیٹی ہے، اسے کھونا اپنے مذہب سے دور ہونا ہے، جیسے مسلمانوں کی عبادات اور مذہبی رسومات، جن میں قرآنِ مجید کی تلاوت ہوتی ہے، اس کو بدل کر اپنی مادری زبان لے آنے سے آپ کی اپنی مذہبی شناخت ہی ختم ہو گئی، اور اس سے چونکہ جذبات وابستہ ہیں، اس لیے نہ تو اس کو بدلنے کی کوئی کوشش کامیاب ہوئی جیسے مصطفیٰ کمال کی اور نہ آئندہ کبھی ہوگی۔
لیکن قرآن صرف تلاوت کیلیے ہی نہیں ہے، بلکہ سمجھ کر اپنی زندگی کو بہتر بنانے کیلیے بھی ہے اور یہ اس بحث کا دوسرا رخ ہے جس کا سبھی اقرار کرتے ہیں لیکن عمل نہ ہونے کے برابر ہے اور آپ کی بحث کے اس رخ سے مجھے بھی اتفاق ہے۔
میرا سب سے چھوٹا بھائی ایم اے کا طالب علم اور عرصہ دس سال سے حافظ ہے، اسے میں نے بارہا پوچھا کہ جو تم پڑھتے ہو اسکی تمھیں سمجھ بھی آتی ہے اور اسکا جواب ہمیشہ نفی میں ہوتا ہے، دوسری طرف اگر لگن ہو، تو عربی سیکھنا کچھ مشکل نہیں ہے، عربی کا عالم فاضل ہونا تو کچھ ضروری نہیں، آپ کو کم از کم اتنی “ورکنگ” عربی آنی چاہیے کہ مطلب سمجھ آ جائے، میں نے بچپن میں قرآن بغیر ترجمے کے پڑھا تھا، لیکن بہت درد اٹھا تو اپنی مدد آپ کے تحت عربی میں اتنی شد بدھ حاصل ہو گئی کہ سمجھ آ سکے، کہنے کا مطلب یہ کہ اگر کوئی صاحبِ دل واقعی اپنی زندگی بدلنا چاہتا ہے تو کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا۔
افضل صاحب میں آپ کا نقطئہ نظر سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں اور آپ کی نیک نیتی میرے لیے کسی بھی شبہ سے بالاتر ہے اور اس تبصرے کا مقصد صرف نقطئہ نظر واضح کرنا ہے۔ میں آغاز اس بات سے کرتا ہوں کہ فرض کریں میں آپ کے دلائل کو مان لیتا ہوں ۔۔ لیکن اس سے پہلے کیا آپ مجھے غالب کے ایک شعر کا انگریزی ترجمہ کردیں گے؟
کوئی میرے دل سے پوچھے تیرے تیر نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا
اس کا ترجمہ کرتے ہوئے آپ دو صورتیں اختیار کرسکتے ہیں ۔۔ ایک تو لفظی ترجمہ جس کی صورت میں انگریزی بولنے والے غالب کی ذہنی حالت پر شبہ کرنا شروع کردیں گے کیونکہ “جگر“ کی انگریزی میں کوئی شاعرانہ حیثیت نہیں ہے ۔۔ دوسرا بامحاورہ ترجمہ ممکن ہے جس کی صورت میں نا صرف یہ کہ آپ کو دوسرے الفاظ استعمال کرنے پڑیں گے بلکہ عین ممکن ہے کہ کسی صورتحال میں آپ کو ایک مختلف چیز کے ذریعے متن سمجھانا پڑے۔۔ اور جب لامحدود کا دروازہ کھل جائے تو صورتحال کا اندازہ آپ لگا سکتے ہیں۔
اگر اس چھوٹی سی مثال کا اطلاق آپ قران کریم کے ترجمے پر کریں تو یہ بات سب کے علم میں ہے کہ لفظی ترجمہ پڑھتے ہوئے انسان اسی طرح کی صورتحال سے دوچار ہوتا ہے جہاں بے ربط جملے اسے عجیب و غریب اور کسی بھی قسم کی ہم آہنگی سے پرے دکھائی دیتے ہیں۔ اور دوسری صورت میں جبکہ مختلف مترجم با محاورہ ترجمہ کرتے ہیں تو پھر وہ صرف مفہوم رہ جاتا ہے اور اسے کلام اللہ کا بدل نہیں سمجھا جاسکتا اور بغیر عربی جانے اس طرح کے تراجم فرقہ بندی کی وہ شدید شکل پیش کرتے ہیں جو بر صغیر پاک و ہند میں عام دیکھنے کو ملتی ہے جہاں تراجم والے قران کریم کو باقاعدہ مختلف نام بھی دیے گئے ہیں اور دوسرے کسی بھی ترجمے کو باطل مانا جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب ایک عام خواندہ اور ناخواندہ عجمی مسلمان کم از کم دو زبانوں میں اتنی مہارت رکھتا ہے کہ کچھ نہ کچھ کام چلا لے جس پر فیصل صاحب نے پچھلی پوسٹ میں تفصیلی روشنی ڈالی ہے تو پھر صرف عربی کے لیے ہماری کوتاہی کی سزا قران کریم کو کیوں دی جائے؟ اور نا ہی اسلام کا یہ تقاضا ہے کہ ہر انسان قران کریم کے علم میں فاضل کا درجہ حاصل کرے۔۔ صرف اتنا تو ممکن ہے کہ انسان جس طرح اصل ڈاکٹر اور اطائی ڈاکٹر میں تمیز کرسکتا ہے اسی طرح اتنی عربی جانے کہ اصل ملا اور اطائی ملا میں فرق کرسکے۔۔ اور کم از کم اس چیز کو چیلنج کرسکے کہ جس چیز کو قران سے منسوب کیا جارہا ہے آیا وہ قران ہے بھی یا نہیں۔۔ اور اس کے لیے نہایت بنیادی عربی سے کام چل سکتا ہے جس کے لیے اجمل صاحب نے ایک پوسٹ لکھ رکھی ہے۔
عربی زبان اسلام کی عالمگیریت کی ضامن ہے۔۔ اگر اس پر کمپرومائز کیا گیا تو اسلام کی عالمگیر حیثیت بہت بری طرح مجروح ہوسکتی ہے۔ یہ فرقہ پرست نام نہاد ملاؤں یا پھر نام نہاد روشن خیال لوگوں کے لیے تو نہایت آئیڈیل صورتحال ہوگی لیکن ایک عام اور متعدل مسلمان کے لیے ختم شریف کے لیے عربی میں بلا سمجھے قران پڑھنا زیادہ بہتر صورتحال ہے۔
جاوید صاحب
نہ ہم خود کو عقل کل مانتے ہیںاور نہ ایسا ارادہ ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہم اپنی تحریر پر تبصروں کی اجازت ہی نہ دیتے۔ دراصل ہم نے اسلام کی کامیابی کیلیے ایک تجویز پیش کی جسے پسند نہیں کیا گیا۔ ہم جمہور کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے دوبارہ اپنی شکست تسلیم کرتے ہیں مگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ دونوں تحریریں ہمارے بلاگ پر رہیں تاکہ ان پر کئے گئے تبصروں سے لوگ رہنمائی حاصل کر سکیں۔ اس کے باوجود اگر آپ چاہتے ہیں تو ہم کوئی ایسا حل ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے جہاں تحریر مٹ جائے مگر تبصرے موجود رہیں۔
طفل صاحب
اگر ہمارا مقصد تبصروں کی تعداد بڑھانا ہوتا تو ہم اس طرح کی تحاریر تین سال قبل لکھ رہے ہوتے۔ امید ہے آپ ہماری نیک نیتی پر یقین کریں گے۔
راشد صاحب
آپ کی بات درست اور ہماری غلط۔ ہم اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے توبہ کرتے ہیںامید کرتے ہیں کہ خدا ہماری نیت جانتے ہوئے ہمیںضرور معاف کر دے گا۔
اس ساری بحث کا نتیجہ یہی نکلا کہ قرآن عربی میںہی پڑھنا چاہیے اور اسے سمجھنے کیلیے مسلمانوںکو عربی سیکھنی چاہیے۔ اسلام کی ساری عبادات عربی میںہی ہونے چاہئیں اور مسلمانوں کو ان کا مطلب معلوم ہونا چاہیے۔ کام مشکل ہے مگر ناممکن نہیں اگر آج کل کے سہل پسند مسلمان شاید باقی کاموں کی طرح اسے بھی بھاری پتھر سمجھ کر سائیڈ پر نہ رکھ دیں۔
بقول محمد وارث صاحب ہم نے شاید یہی گستاخی کی ہے۔
بلا کشانِ محبّت کی رسم جاری ہے
وہی اٹھانا ہے پتھر جو سب سے بھاری ہے
اللہ سبحان و تعالٰی آپ کو جزآئے خیر دے ۔ آمین
السلام علیکم!
پچھلے بلاگ میں بھی ہم مسئلے کا حل بتا چکے۔
http://www.mypakistan.com/?p=2333#comment-24858
زبان سے کہنا اور بات ہے مگر حقیقت میں ہونا اور بات ہے۔ سب کے دلائل بھی آپ نے پڑھے اور پھر بھی آپ کی گذشتہ تحریر سے واضع ہے کھ آپ اپنی رآئے کو ہی ٹھیک سمجھتے ہیں‘ زبان سے تو آپ نے کھ دیا کھ شکست مان لی لیکن تحریر کہتی ہے کھ آپ خود کو عقل کل سمجھتے ہیں‘ یا آپ واقعی سمجھتے ہیں یا آپ کی تحریر آپ کا ساتھ نہیں دے رہی۔
بہرحال حل وہی ھے جو سب لوگ بتا چکے۔
یہ بات بہت اچھی ہے کہ افضل صاحب اپنی غلطی مانتے ہوے قارئین کی اکثریت سے متفق ہو گئے، مجھے بھی آپ کی نیت پر کوئی شبہ نہیں ہے، لیکن
اس بحث کا ایک فائدہ تو ضرور ہوا کہ جن قارئین کی معلومات اس موضوع پر کم تھی ان کی بھی رہنمائی ہو گئی
ارے واہ ۔۔ خوب ۔۔ اور لڑو زرا مزا نہیں آیا بمب سمب چلنے چاہیے تھے
افضل صاحب اللہ آپکو جزائے خیر دے
شاید آپکو اب اندازہ ہوگیا ہوگا کہ جب قرآن پاک کا پہلا ترجمہ کیا گیا ہوگا تو کیا کیا قیامتیں اور تہمتیں ان پر نہیں اٹھا رکھی گئی ہوں گی؟ یہ پہلا ترجمہ فارسی میں کیا گیا تھا اور بریصغیر ہی کے حصے میں یہ سعادت بھی آئی تھی۔
میں عام سا انسان ہوں اور میری عقل بھی اتنی سی ہے تاویلات اور بُراہین کی استطاعت نہیں لیکن اتنا جانتا ہوں کہ پاکستان میں جب پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بنوانے کاکام نادرا نے آسان کردیا تو ایک طبقے نے انہیں بڑی بد دعائیں دی ہوں گیں۔۔۔۔۔۔ جی ہاں جن کی روٹی روزی دلالی اور فارم بھرنے سے چلتی تھی۔
the comments highlighted green appear as single alphabets in my browser opera . i have checke this site and alot of ther sites like this in all the versions of opera .. whare as the comments that are not higlighted are displayed properly in complet words not as isoloated characters. plz help..
Leave A Reply