ہماری تنزلی کی بہت ساری وجوہات میں سے ایک اداروں کی بجائے شخصیات کی اہمیت پر زیادہ زور دیا جانا ہے۔ یہی وجہ ہے اس ہفتے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل شجاع پاشا کی نوکری میں توسیع کر دی گئی ہے۔

یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ جس بھی ادارے کا جائزہ لیا جائے اس کے سربراہ کی خواہش ہو گی کہ وہی تاحیات سربراہ بنا رہے کیونکہ اس کے خیال میں اس سےبہتر اس ادارے کو کوئی نہیں چلا سکتا۔

مساجد کے امام تبھی جان چھوڑتے ہیں جب اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں۔

پرائیویٹ سکولوں کے ہیڈماسٹر تب تک ہیڈماسٹر رہتے ہیں جب تک چارپائی کیساتھ نہیں لگ جاتے۔

خاندان کا سربراہ چاہے عورت ہو یا مرد وہ اپنی حکومت اپنے بچوں تک کو منتقل کرتے ہوئے ڈرتا ہے کیونکہ اس کو اپنی اولاد پر بھروسہ نہیں ہوتا۔

فیکٹری کا مالک مرتے دم تک اس کا چیئرمین رہتا ہے چاہے اس کے زنگ آلودہ خیالات سے فیکٹری تباہ ہو جائے۔

سیاسی پارٹیوں کے سربراہ تب تک صدارت کیساتھ چمٹے رہتے ہیں جب تک ان کی سانسیں نہ رک جائیں۔

اپنے اختیارات اگلی نسل کو منتقل نہ کرنے کی دو اہم وجوہات ہیں۔ ایک اپنی ذات کا تحفظ اور دوسرے اپنے آپ کو حرف کل سمجھنا۔ لیکن ہم کم عقل یہ بات نہیں سمجھتے کہ اس طرح ترقی کا عمل رک جاتا ہے۔ پرانی نسل تجربہ کار سہی مگر وہ نئے زمانے کی ترقیوں سے ناواقف ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر بوڑھے اب بھی اخبار اور ٹی وی کو کمپیوٹر اور سیل فون پر ترجیح دیتے ہیں۔ وہ اے ٹی ایم مشین کی بجائے اصلی رقم اور چیک کو زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں۔

جو قوم اختیارات کی منتقلی کا نظام بہتر طور پر نہیں چلا سکتی وہ وقت کیساتھ ساتھ نہیں چل سکتی۔ یہی  وجہ ہے ہم مسلمان دنیا کی ترقی کیساتھ نہیں چل پائے کیونکہ ہمارے مذہبی اور سیاسی لیڈر پرانے خیالات کے مالک ہیں اور اپنے اختیارات اگلی نسل کو منتقل کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ ہم تبھی ترقی کریں گے جب میں سے باہر نکلیں گے اور اپنے اداروں کو مضبوط کریں گے ناں کہ اپنے آپ کو۔