درآمدشدہ سابق وزیراعظم کی آٹھ سالہ حکومت کی جس ترقی کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا رہا کیا اب اس ترقی کے غبارے سے ہوا نکلنے تو نہیں لگی۔ ماہر معاشیات ڈاکٹرشاہد حسن صدیقی اور سٹیٹ بنک کے اعدادوشمار تو اسی طرف اشارہ کررہے ہیں۔

کشکول توڑنے والی حکومت کے دور میں پاکستان پر قرضوں کا بوجھ 400 ارب سے بڑھ کر 2822 ارب روپے ہوچکا ہے۔

پچھلے سات ماہ میں بیرونی سرمایہ کار اب تک پاکستانی معیشت سے 162 ارب روپے نکال چکے ہیں۔

اس سال مالیاتی خسارہ 160 ارب ہو چکا ہے جو پچھلے سال کی نسبت 83 فیصد زیادہ ہے۔ جاری حسابات کے خسارے کو پورا کرنے کیلیے جس تیزرفتاری سے غیرمعیاری سرمایہ کاری کی جارہی ہے اس کی بھی پاکستان کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ہے۔

اشیاء سازی کی شرح نمو 15.5 سے کم ہو کر 7.6 فیصد رہ گئی ہے۔

کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے سے تنخواہ دار طبقے کی حالت دگرگوں ہو چکی ہے۔

اس کے باوجود ہمارے صدر محترم چین میں ہیں۔ نہ انہیں فکر ہے نہ فاقہ۔ کیونکہ نہ ان کے گھر آٹے کی کمی ہے اور نہ گھی کی۔ وہ پیٹ بھر کر گھر سے نکلتے ہیں اور پیٹ بھر کر سوتے ہیں۔ ان کو بس ایک ہی مشن سونپا گیا ہے۔ دہشت گردی کی جنگ اپنوں کیخلاف ہی لڑنا اور دونوں طرف یعنی فوج اور پاکستانیوں کی جانوں کی قربانی دینا۔ ان کا اپنا بیٹا ان کے آقاؤں کے ملک میں چین کی زندگی گزار رہا ہے اور بیٹی اپنے گھر میں خوش ہے۔ باقی رہے غریبوں کے بیٹے بیٹیاں تو وہ ان کی نظر میں کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں۔ کیونکہ غریب ابھی تک مزاحمت بن کر ان کو للکار نہیں پائے۔ جنرل ریٹائرڈ مشرف کو ڈرنا اس وقت سے چاہیے جس دن غریبوں نے ان کو دیس نکالا دے دیا۔ لیکن نہ مشرف صاحب کے پیشروؤں نے اپنے پیشروؤں سے سبق سیکھا اور نہ مشرف صاحب کا سبق سیکھنے کا ارادہ ہے۔ نہ انہیں تاریخ میں اپنا نام اچھے الفاظ میں ریکارڈ کرانے کی فکر ہے اور نہ اپنی عاقبت سنوارنے کی۔ انہیں فکر ہے تب تک کی جب تک وہ جی رہے ہیں۔

بے بس مسلمانوں کے حاکمو، خدا کا خوف کھاؤ اور کچھ اپنی رعایا کی بھی فکر کرو۔ اپنی ساری توانایاں اپنے آقاؤں کے مشن کی تکمیل کیلیے نہ صرف کردو۔ اگر تمہیں قیامت پر یقین نہیں ہے تو کم از کم اس دن سے تو ڈرو جس دن تم دنیا میں رسوا کئے جاؤ گے۔